فلوطین یا فلاطینوس (انگریزی: Plotinus) مصر میں سن 205ء میں پیدا ہوا۔اس زمانے میں مصر رومی سلطنت کا حصہ تھا۔ اسے نوفلاطونی مکتبِ فکر کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ وہ فلسفہ جو اس نے اپنے استاد آمونیس ساکاس سے سیکھا اور شاگرد کو سکھایا، نوفلاطونی فلسفہ کہلایا۔ نوفلاطونی فلسفی عقل کے ساتھ ساتھ شہود، جذب اور وجد کو حکمت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسی جداگانہ نوفلاطونی مشرب کی وجہ سے بعض اسے ایک الٰہیات دان قرار دینے کے بجائے ایک صوفی مفکر سمجھتے ہیں۔ اس کے مطابق فلسفے کا راستہ اندرونی شہود اور خالص مفاہیم پر مبنی جدلیاتی طرزِ فکر کے ساتھ ساتھ روح کو پاک صاف کرنے سے طے ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے نزدیک فلسفے کا معنی اور مقصد ہستی اور کائنات کو جاننا نہیں بلکہ معرفت اور تزکیہ کی مدد سے روح کو خدا تک پہنچانا ہے۔ وہ واضح انداز میں صوفیوں کی روحانی واردات کو حقیقی فلسفی کے فضل و کمال کی انتہاء سمجھتا ہے اور تعقل کو فلسفے کا مقصد نہیں سمجھتا۔فلو یہودی اور سکندر افرودیسی کو فلوطین کا پیش رو سمجھا جاتا ہے۔[11]

فلوطین
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 205ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 270ء (64–65 سال)[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت قدیم روم   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فلسفی [8]،  مصنف [9]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان لاطینی زبان ،  قدیم یونانی [10]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

فلوطین 203ء یا 205ء میں مصر کے ایک شہر لکوپالس میں پیدا ہوا۔ وہ رومن نژاد تھا ۔ اس کے شاگرد فرفوریوس نے اس کی ایک مختصر سی سوانح حیات لکھی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اوائل عمر میں تحصیل علم کے لیے سکندریہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے امونیس سکاس سے تعلیم پائی۔ بعض اہل تحقیق کا خیال ہے کہ نوفلاطونیت کا بانی بھی سکاس ہے۔ فلوطین نے صرف اتنا کیا کہ اس کی تعلیمات کو قلم بند کر لیا جیسے افلاطون نے اپنے استاد سقراط کے افکار کو اپنے مکالمات میں محفوظ کر لیا تھا۔ سکاس نے جوانی میں عیسوی مذہب قبول کر لیا تھا لیکن بعد میں اسے ترک کر دیا اور اس کے خلاف تقریریں کرنے لگا۔ شاید اسی وجہ سے فلوطین اور اس کے شاگرد شروع ہی سے عیسائیت کی مخالفت کو اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔

سکندریہ میں فلوطین کو ایران اور ہندوستان کے باشندوں سے میل جول کے مواقع ملتے رہے۔ یہ لوگ اکثر تجارت پیشہ تھے۔فلوطین کی دلی خواہش تھی کہ وه ایران اور ہندوستان جا کر وہاں کے حکماء سے استفاده کرے۔ اتفاق سے انہی دنوں شہنشاهِ روم گاردیان دوم نے ایران پر فوج کشی کی۔ اس موقع کو غنیمت جان کر فلوطین اس کی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ لیکن زیادہ دن نہیں گزرنے پائے تھے کہ شہنشاہ گاردیان کو قتل کر دیا گیا اور فلوطین نے بھاگ کر انطاکیہ میں پناہ لی۔ وہاں کچھ مدت قیام کرنے کے بعد وہ روم چلا گیا اور وہاں اپنی درس گاہ قائم کی۔[12]

نظریات

ترمیم

محققین نے فلوطین کو ان معنوں میں التقاطی حکماء میں شمار کیا ہے کہ اس نے افلاطون، ارسطو، رواقیوں اور عرفاء کے نظریات کو اپنی آراء میں جمع کر دیا ہے۔ پچھلوں کا اثر قبول کرنے کے علاوہ اس نے اپنے بعد والوں پر گہرے اثرات بھی مرتب کیے ، اور مسیحی فلسفہ اور مسلم فلسفہ، ہر دو فلوطین کے عرفانی نظریات اور فلسفی قواعد پر قائم ہوئے۔[13]

1. وجود کے درجات

ترمیم

فلوطین وجود کے مراتب کا قائل ہے۔ وجود کی تشکیک اور اس کے مراتب کی بات افلاطون کے کائنات کو دو حصوں، معقول دنیا اور محسوس دنیا، میں تقسیم کرنے کا تسلسل ہے جس کو فلوطین نے مزید تقسیم سے دوچار کیا ہے۔ فلوطین عالمِ معقول اور عالمِ محسوس کے بیچ روح نام کے ایک واسطے کا قائل ہوا اور پھر اس نے روح اور مادے کے بیچ طبیعت نام کے ایک اور مرتبے کو تصور کیا۔ اس نے عالمِ محسوس میں بھی تشکیک کا مفروضہ پیش کیا اور وہ یوں کہ صورتوں کو مادے سے بالا تر مرتبہ قرار دیا۔

عقل، نفس، طبیعت اور مادہ کے علاوہ فلوطین واحد کا بھی قائل ہے جو وجود سے بالاتر ہے۔ لہٰذا اسے مراتبِ وجود میں شمار نہیں کرتا، بلکہ فوقِ وجود سمجھتا ہے۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ فلوطین کے فلسفی نظام کی بنیاد پانچ تصورات ہیں: واحد، عقل، روح، طبیعت اور مادہ۔

وہ واحد، عقل اور نفس کو اقانیمِ ثلاثہ قرار دیتا ہے۔ اقنوم، کہ جسے کبھی جوہر اور کبھی اصل کہتا ہے، ایسا جوہر ہے کہ اپنی خصوصیات کا ذاتی طور پر مالک ہے۔ ہر اقنوم کی صفات ذاتی اور لایعلل ہیں اور ان کے بارے چون و چرا کرنا ممنوع ہے۔ عالمِ محسوسات اصل اور اقنوم نہیں ہے، اگرچہ وہ مراتبِ وجود میں سے ہے لیکن حقیقی وجود نہیں بلکہ ظاہری وجود ہے۔[11]

جدید دور میں مغرب میں سامنے آنے والے مکتب فکر ایگزسٹنشیالزم کے نام کا ترجمہ بعض لوگوں نے وجودیت کیا ہے جس سے اس فلسفے کو فلوطین کے وجود کے تنزلات پر مبنی فلسفے سے گڈمڈ کیا جانے لگا ہے۔ سید علی عباس جلالپوری کے نزدیک یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ ان کے مطابق درست ترجمہ موجودیت ہے۔ کیونکہ وجود Being کا ترجمہ ہے۔ Existent کا ترجمہ 'موجود' ہے۔ مزید براں، وجودیت سے ہمارے یہاں وحدت الوجود یا ہمہ اوست مراد ہے۔ جو صوفیہ اس نظریے کے قائل ہوئے ہیں انہیں وجودی یا وجودیہ کہا گیا ہے۔ [14]

روشنی اور مادے میں جدید تحقیقات سامنے آنے کے بعد اور مختلف منطقی مغالطات کی نشاندہی کے نتیجے میں وجود کے درجات کا تصور محققین نے رد کر دیا ہے۔[15]

2. تثلیث

ترمیم

فلوطین کے فلسفے کا سنگ بنیاد تجلی (Emanation) کا تصور ہے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ ذاتِ واحد سے بتدریج عقل، روح، روح انسانی، اور مادہ کا نزول (Descent) ہوتا ہے۔ تعمق و تفکر کے طفیل روح انسانی مادے کے تصرف سے آزاد ہو کر دوبارہ اپنے مبداء حقیقی سے جا ملتی ہے۔ اسے صعود (Ascent) یعنی اوپر جانا کہتے ہیں۔ عربی زبان میں اس نظریے کو فصل و جذب، ذات احد سے جدا ہو کر دوبارہ اس میں جذب ہو جانا، کہتے ہیں۔

فلوطین کی تثلیث ذاتِ واحد، عقل، روح پر مشتمل ہے اور عیسوی تثلیث سے مختلف ہے۔ عیسوی تثلیث کی طرح اس کے ارکان کا مقام ایک جیسا نہیں ہے۔ ذاتِ واحد سب سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس کے بعد عقل کا مقام ہے اور اس کے بعد روح کا درجہ ہے۔ اس تثلیت کے تیسرے رکن یعنی روح سے آفتاب، قمر اور دوسرے اجرام فلکی کا ظہور ہوا۔ روح سے انسان کی روحِ علوی پھوٹی۔ انسانی روح جب مادے کی طرف مائل ہوئی تو وہ اپنے مقام سے گر گئی اور روحِ سفلی کا نام پایا۔ مادے کے تصرف سے نجات پانے کے لیے وہ پیہم کشمکش کرتی ہے اور اپنے مبدائے حقیقی کی طرف پرواز کر جانے کے لیے بے قرار رہتی ہے۔

نظریۂ تجلی کی وضاحت کرتے ہوئے فلوطین نے آفتاب کی تمثیل سے کام لیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذاتِ احد سے عقل اور روح کا بہاؤ ایسے ہوتا ہے جیسے آفتاب سے نور چھلک پڑتا ہے۔ لیکن جس طرح نور کے انعکاس سے سرچشمۂ آفتاب متاثر نہیں ہوتا، ایسے ہی عقل کے بہاؤ سے ذاتِ احد اثر پذیر نہیں ہوتی۔

مادہ وہ تاریکی ہے جہاں آفتابِ حقیقت کی شعاعیں نہیں پہنچنے پاتیں۔ کائنات کی تمام اشیاء کا ہیولیٰ یہی مادہ ہے۔ روح اسے صورت شکل عطا کرتی ہے۔ انسان کی روحِ علوی کا رابطہ روحِ کُل سے بدستور قائم رہتا ہے۔ روحِ سفلی جو مادے سے قریب تر ہے، گناہ کا سرچشمہ اور ہوا و ہوسِ نفسانی کا مرکز ہے۔

3. رہبانیت

ترمیم

اس ما بعد الطبیعات سے جو دستور اخلاق مرتب کیا جا سکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ جب ماده شر اور گناہ کا مرکز ٹھہرا تو بدیہی طور پر اس سے کنارہ کش ہونا بڑے گا تا کہ روحِ انسانی پاک اور منزہ ہو کر روحِ کُل کی طرف پرواز کر سکے۔ نتیجتاً ایک نوفلاطونی کا فرض اولین یہ ہو گا کہ وہ عالمِ حواس سے منہ موڑ کر شبانہ روز مراقبے میں غرق رہے تا کہ اس کی روح میں پرواز کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اس طرح نوفلاطونیت اخلاق و عمل میں زاویہ نشینی اور رہبانیت کی تلقین کرتی ہے۔

فلوطین مرتے دم تک اپنے عقائد پر کاربند رہا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ مراقبے کی حالت میں اسے کئی بار روحِ کُل میں جذب ہونے کا تجربہ ہوا۔ لیکن ازخود رفتگی کی یہ کیفیت گریز پا ثابت ہوئی اور مادے کی کشش نے روح کو دوبارہ عالمِ سفلی میں کھینچ لیا۔ شاید اسی بنا پرفلوطین کی موت کے بعد اس کے پیروؤں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اسے الہام ہوتا تھا اور اس سے معجزات کا صدور بھی ہوا تھا۔ ایک مرتبہ ایک مصور نے فلوطین کی تصویر کھینچنے کی خواہش کی۔فلوطین نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میرا جسم میرے وجود کا ایک غیر اہم حصہ ہے، اس کی تصویر کھینچنا بے سود ہے۔[12]

پیروکار

ترمیم

فلوطین کو اپنے عقائد و افکار کی اشاعت میں نمایاں کامیابی ہوئی۔ حتیٰ کہ شہنشاہ روم گیلئس اور اس کی ملکہ سلوینیا بھی اس کے مداحوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ فلوطین کے شاگردوں میں امیلوس، اسٹوکیس اور فرفوریوس نے شہرت حاصل کی۔ فرفوریوس نے فلوطین کے 54 رسائل کو چھ چھ کی اینئڈز (Enneads، لغوی معنی؛ 9) میں تقسیم کیا۔ 9 کے عدد کو فیثاغورس کے مسلک میں مقدس و کامل سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے بطور تبرک و تفاول یہ ترتیب عمل میں آئی۔ ان رسائل کی چوتھی اینئڈ میں روح کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے اور اس کا ایک حصہ (ساتواں رسالہ) بقائے روح کی بحث کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ اس کا شمار فلوطین کے اہم ترین رسائل میں ہوتا ہے۔

فلوطین کی وفات کے بعد اس کے شاگرد فرفوریوس نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سے نوفلاطونیت کا دوسرا دور شروع ہوا۔ فرفوریوس (متوفیٰ 300ء) کا اصل نام مالخوس تھا اور وہ سامی النسل تھا۔ وہ فلوطین کا محض مقلد ہی نہیں تھا بلکہ اس نے اپنے نامور استاد کی تعلیمات میں اضافے بھی کیے۔ فرفوریوس نے نوفلاطونیت میں ارسطو کی منطق کو داخل کیا اور اس کی تعلیمات کو فلوطینکے عقائد میں گھلا ملا دیا۔ اس کا یہ اقدام تاریخی لحاظ سے بڑا اہم ہے کیونکہ دورِ عباسیہ کے عرب حکماء کے پاس افلاطون اور ارسطو کی جو تعلیمات سریانی ترجموں کے ذریعے سے پہنچیں وہ فرفوریوس کے اسی نظریے کی حامل تھیں کہ افلاطون اور ارسطو کے نظریات میں کسی قسم کا بنیادی اختلاف نہیں ہے۔

فرفوریوس کا ایک شاگرد جملیقس تھا جس نے افلاطون اور ارسطو کی کتابوں پر محققانہ شرحیں لکھیں جو اب نایاب ہیں۔ تحصیلِ علم سے فارغ ہو کر وہ اپنے وطن شام کو چلا گیا اور وہاں نوفلاطونیت کا درس دینے لگا۔ نوفلاطونیت کا آخری علم بردار پروکلس بازنطینی (Proclus) (415ء تا 485ء) کو سمجھا جاتا ہے۔ اس نے یونانیوں کی کثرت پرستی کے جواز میں کتابیں لکھیں۔ وہ عیسائیت سے سخت متنفر تھا اور ساری عمر اس کے خلاف تقریریں کرتا رہا۔ اس لیے اسے نوفلاطونیت کا مبلغ کہنا چاہیے۔[12]

آگسٹائن ولی (Saint Augustine) اس کا مداح تھا۔ اس کا خیال تھا کہ فلوطین کی روح میں افلاطون کی روح نے حلول کیا ہے اور افلاطون کو وہ فلاسفہ کا مسیح کہا کرتا تھا۔ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ عیسائیت اور نو فلاطونیت میں بنیادی توافق پایا جاتا ہے اور فلوطین کی تعلیمات میں خفیف سا رد و بدل کر دیا جائے تو اسے عیسائی کہنے میں کوئی تامل نہیں ہو گا۔آگسٹائن ولی کی طرح کلیمنٹ ولی بھی نو فلاطونیت کا بڑا شیدائی تھا۔ وہ سکندریہ کا پہلا عیسائی اہلِ قلم ہے جس نے فلسفے اور عیسائی فکر و نظر میں مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ ازمنۂ وسطی کے عیسائی متکلم عیسائیت کے پردے میں فلوطین کے افکار ہی کی تبلیغ کرتے رہے حتیٰ کہ طامس اکوئنس نے ارسطو کے افکار کی اہمیت واضح کی۔ آج بھی کلیسائے روم کے علمِ کلام میں فلوطین کی تعلیمات باقی و برقرار ہیں۔[12]

مسلمانوں کا فلوطین کی سوچ سے متعارف ہونے کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی کے زمانے میں یونانی فلسفے کے عربی ترجمے کے دوران ہوا۔ اس تعارف کی تاریخ میں قابلِ توجہ واقعہ وہ غلط فہمی ہے جو فلوطین کی کتاب اثولوجیا کے بارے میں پیدا ہوئی۔ یہ کتاب معرفۃ الربوبیہ، الٰہیات اور فلسفۂ اولیٰ  کے عنوانات سے ترجمہ ہوئی اور اسے ارسطو کی کتاب پر پورفائری (متوفیٰ 305ء) کی شرح سمجھا گیا۔ یہ پہلی بار مسیحی مترجم عبدالمسیح ابنِ ناعمہ نے یعقوب الکندی کیلئے سریانی سے عربی زبان میں ترجمہ کر کے ارسطو سے منسوب کی۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اثولوجیا فلوطین کی کتاب تاسوعات کا تیسرا حصہ ہے۔[16] ابنِ سینا نے ارسطو اور فلوطین کی آراء کو ملانے کی کوشش کی، کیونکہ وہ اثولوجیا کو ارسطو کی کتاب سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس کی الہیات اور نظریۂ فیض پر اس کوشش کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔شیخ اشراق نے بھی اس سے الہام لیا ہے۔[17]

فلوطین کا خیال تھا کہ ذاتِ واحد کائنات سے بے تعلق اور ماوراء بھی ہے اور اس میں طاری و ساری بھی ہے۔ ابنِ عربی نے بھی بھی کہا ہے۔ ابنِ عربی کا اللہ، افلاطون کا خیرِ محض اور فلوطین کی ذاتِ واحد ایک ہی مفہوم میں استعمال کیے گئے ہیں۔ شیخ اکبر نے فلوطین کی عقلِ اول کو حقیقتِ محمدیہ کا نام دیا ہے۔ ہسپانیہ میں نو فلاطونیت کی ترویج رسائل اخوان الصفا کی اشاعت سے ہوئی جن سے ابنِ عربی نے بھی استفادہ کیا تھا۔ ابنِ عربی کے شاگردِ رشید اور لے پالک مولانا صدر الدین قونوی، مولانا روم کے استاد تھے۔ مولانا روم ایک مدت تک ان کے درس میں شریک ہو کر فتوحات اور نصوص پر ان کی شرح و توضیح سے فیض یاب ہوتے رہے۔ مثنوی مولانا روم میں فصل و جذب کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ ابنِ عربی کے واسطے سے فلوطین ہی کی صدائے بازگشت ہے۔[12]

مُلا صدرا اثولوجیا کے مصنف کو عارفِ الٰہی، بلند معنوی مقامات پر پہنچا ہوا اور کشف و شہود اور علمِ حضوری سے بہرہ مند سمجھتا ہے۔[18]ملا صدرا اپنے کئی خیالات کو اثولوجیا سے ماخوذ قرار دیتا ہے۔ مثلاً: تجلی اور فیض و ظہور کا نظریہ کہ جس کے مطابق ممکنات حق کی تجلی کے آئینے ہیں اور حق ظہورِ واحد رکھتا ہے جو کہ واجب الوجود کا تعینات کے قالب میں نزول ہونا ہے[19] ، حرکتِ جوہری[20]، عالمِ عقل کی صفات اور عالمِ اعلیٰ کا زندہ اور تام ہونا[21] ، اتحادِ عقل و عاقل و معقول [22]، رابطۂ صَنم و مُثل[23]، ہر شے کی صفات کا عقل میں پایا جانا[24] ، قاعدۂ بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء [25]، دنیا کا ہیولا اور صورت سے ترکیب پانا [26]، قاعدۂ امکانِ اشرف[27]، قاعدۂ امکانِ اخس[28]، قاعدۂ الواحد لا یصدر منہ الا الواحد [29]، واحد سے چیزوں کا صادر ہونا [30]، وغیرہ وغیرہ۔[11]

فرینک تھلی کے الفاظ میں:

”مسلمان فلاسفہ کی رسائی ارسطو کی اصل تعلیمات تک نہ ہو سکی۔ وہ ان کی ترجمانی نو فلاطونی رنگ میں کرتے رہے۔ دراصل نو فلاطونی شرح کے پردے کو ہٹا کر ارسطو کی تعلیمات تک پہنچ سکنا اس زمانے میں سخت مشکل تھا کیونکہ وہ صدیوں سے شرح و ترجمانی کے ملبے میں مدفون ہو چکی تھیں۔ دو اصناف کو البتہ مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے؛ منطق اور ریاضیات۔ جن میں مسلمانوں نے اجتہادی اضافے کیے۔“[12]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118595164 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. Project Gutenberg author ID: https://gutenberg.org/ebooks/author/33956 — بنام: Plotinus — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. بنام: ca 205-270 Plotin — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/197264 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. LBT person ID: http://www.lordbyron.org/persRec.php?&selectPerson=Ploti270 — بنام: Plotinus — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. بنام: Plotinus — Post-Reformation Digital Library author ID: http://prdl.org/author_view.php?a_id=1242 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. Archive Site Trinity College Cambridge ID: https://archives.trin.cam.ac.uk/index.php/plotinus-c-205-270-philosopher — بنام: Plotinus
  7. بنام: Plotino — پی ٹی بی این پی - آئی ڈی: http://id.bnportugal.gov.pt/aut/catbnp/11814
  8. https://cs.isabart.org/person/19314 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  9. عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
  10. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/67274339
  11. ^ ا ب پ محمد مہدی گرجیان، نرجس رودگر، ”انعکاسِ فلسفۂ فلوطین در حکمتِ صدر المتالہین“، حکمت اسراء بهار 1391 شماره 11
  12. ^ ا ب پ ت ٹ ث   سید علی عباس جلالپوری، 'روایاتِ فلسفہ'، باب: نوفلاطونیت، خرد افروز، جہلم۔
  13. سیر حکمت در اروپا، ص 72
  14. سید علی عباس جلالپوری، 'روایاتِ فلسفہ'، باب: موجودیت پسندی، خرد افروز، جہلم۔
  15. سید محمود ہاشمی نسب، تاملی در نظریہ اصالت وجود و وحدت وجود، صفحات 189 تا 194، انتشارات دلیل ما، تہران، 1393 ہجری شمسی۔
  16. فلسفۂ فلوطین، ص 46
  17. سیرِ حکمت در اروپا، ص 73
  18. اسفار اربعہ، ج 1، ص 6؛ ج 9، ص 109 تا 111
  19. اسفار اربعہ، ج 2، ص 357
  20. اسفار اربعہ، ج 3، ص 111
  21. اسفار اربعہ، ج 3، ص 340
  22. اسفار اربعہ، ج 3، ص 427
  23. اسفار اربعہ، ج 6، ص 277
  24. اسفار اربعہ، ج 6، ص 281
  25. اسفار اربعہ، ج 7، ص 33
  26. اسفار اربعہ، ج 7، ص 147
  27. اسفار اربعہ، ج 7، ص 244
  28. اسفار اربعہ، ج 7، ص 258
  29. اسفار اربعہ، ج 7، ص 273
  30. اسفار اربعہ، ج 6، ص 278؛ ج 7، ص 272