فیمنزم ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق مرد اور عورت دونوں برابر انسانی حقوق، بنیادی سہولیات، اقتصادی اور سماجی حقوق کے مستحق ہیں۔

ویسے تو فیمنزم کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر صحیح معنوں میں یہ تحریک مارکس ازم کے ساتھ شروع ہوئی اور کالونیل ازم کے خاتمہ پر اس تحریک نے بہت زور پکڑا۔ فیمنزم کی شروعات کا اہم ترین موقع وہ تھا جب 1911 میں برٹش خواتین کے احتجاج پر انھیں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ فیمنزم دراصل مغربی خواتین کی اپنے حقوق کے لیے کیے جانے والی جدوجہد کی ہی ایک شکل ہے۔ سے کی گئی-1995ء میں بیجنگ ویمن کانفرنس میں ہیلری کلنٹن نے اپنی مشہور زمانہ تقریر میں کہا تھا ” عورتوں کے حقوق ہیومن رائٹس ہیں ” اور اس نے ایسی این جی اوز کو عالمی توجہ فراہم کی تھی اور اسی نے فیمنسٹ ایکٹوازم کو فرنٹ فٹ پہ لاکھڑا کیا تھا۔ مغربی خواتین نے اپنے حقوق کی جدوجہد کی جنگ لڑی جو تاحال جاری ہے مغربی خواتین نے پہلے خود کو مرد کے تسلط سے نکالا ملازمت، بزنس، سفر کرنا یہ سب شروع کیا اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائیں جس کے باعث انھیں حقوق کی جدوجہد میں بہت آسانیاں رہیں۔ پاکستان میں بھی فیمنزم کا نام سنا جانے لگا ہے پچھلے کچھ سالوں سے اس میں بہت تیزی بھی آئی ہے۔ فیمنزم میں پاکستان کی خواتین کا کردار ہر گز مغربی خواتین والا نہیں ہے یہاں خواتین کو حقوق مغربی ممالک والے چاھئیں مگر ذمہ داریوں کے لحاظ سے پاکستان کی خواتین اس ڈگر پر چلنے کی روادار نہیں ہیں جس پر مغربی خواتین چلی ہیں۔ کسی بھی قسم کے استحصال میں مکمل معاشرہ زمہ دار ہوتا ہے معاشرہ مرد و زن دونوں سے مل کر بنتا ہے گو کہ خواتین کے استحصال میں مردوں کا حصہ زیادہ گردانا جاتا ہے اور یہ صحیح بھی ہے مگر خواتین اس معاشرہ کا حصہ ہیں۔ خواتین پر ظلم کو میں بہت غلط سمجھتا ہوں