سانچہ:دارالعلوم معین الاسلام بیکا صوابی

معروف عالم دین شیخ التفسیر والحدیث مولانا قاضی فضل اللہ جان ایڈوکیٹ کی حالات زندگی

حصہ اول ترمیم

مولانا قاضی فضل اللہ صاحب ایک ممتاز مذہبی اسکالر اور محقق ہیں، آپ لاہور ضلع صوابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کی علمی، دینی اور سیاسی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے لیکن یہ پاکستانی قوم کی بد قسمتی ہے کہ قابل اور ذہین لوگ جس فیلڈ میں بھی ہوں ان کو یہاں عزت نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی ان حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر اوقات ایسے قابل اور ذہین لوگ ملک کو خیر باد کہہ کر بیرون دنیا میں خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ قاضی فضل اللہ صاحب بھی اس ملک کے ممتاز مذہبی اسکالر ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو بلا کا ذہن دیا ہے ، آج امریکا کے اسلامک سنٹر میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مستشرقین اور دیگر اسلام مخالف قوتوں کے شبہات کا علمی جواب دینے کی خدمات سر انجام سے رہے ہیں، آپ نے انگلش، اردو، پشتو اور عربی میں تفاسیر لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جن میں بعض مطبوع ہیں اور بعض زیر طباعت ہیں، تفسیر میں آپ کی مہارت کا اعتراف تمام مکاتب فکر کے اہل علم نے کیا ہے۔ اس طرح آپ نے علوم القرآن، علوم الحدیث، فقہ، سیرت، سکیولر ازم اور سوشلزم سمیت کئی اہم موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ آپ بینظیر کے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے ارکان رہے، بجٹ پر آپ نے جو تجاویز دی ہیں اس سے پہلے کسی نے ایسی تجاویز نہیں دی ہیں۔ اس وجہ سے بینظیر بھٹو کہتی تھی کہ پارلیمنٹ میں دو ماہر سیاسیات ہیں ایک میں اور دوسرا قاضی فضل اللہ ۔ ان تمام خصائص کے باجود آپ کی تواضع اور عاجزی کی یہ حالت ہے کہ آپ اپنی حالات کسی ایک کتاب میں نہیں لکھتے ہیں۔ مختلف محققین اور اسکالرز نے بندہ سے آپ کی حالات زندگی کے حوالے سے رابطہ کیا تو جب فروری 2020 میں قاضی صاحب پاکستان آئے، بندہ نے ان کی خدمت میں حاضری دی اور اس سے ان کی حالات زندگی کے حوالے سے انٹرویو لیا جو نذر قارئین ہے۔

حصہ دوم ترمیم

سوالات:

جدون : جائے ولادت ، تاریخ پیدائش ، خاندانی پس منظر اور ابتدائی تعلیم پر روشنی ڈالیں؟

قاضی صاحب: اسکول ریکارڈ کے مطابق میری تاریخ پیدائش پانچ اکتوبر 1952 ہے ۔ میرے والد کا نام حاجی مصباح اللہ اور دادا کا نام مولوی حمید اللہ ہے، میرا خاندان بنیادی طور پر زمیندار اور کا شکار ہے، میرے والد صاحب زمیندار تھے، البتہ میرے دادا مرحوم ایک عالم دین تھے جو خاندانی پیشے کو برقرار رکھتے ہوئے زیادہ تر مال مویشی پالتے تھے تاہم پھر بھی بعض طلبہ کو ان مشاغل کے ساتھ ساتھ کتابیں پڑھاتے تھے۔ میں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اور ہائی اسکول سے حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دادا مرحوم سے بھی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ ہائی اسکول میں پڑھنے کے دوران بندہ ہر فن کی ابتدائی بلکہ وسطانی کتب بھی پڑھ چکا تھا یعنی مروج نصاب میں آدھے سے زیادہ کتا بیں پڑھ چکا تھا۔ جدون: درس نظامی کی دیگر کتا بیں کہاں اور کن اساتذہ سے پڑھیں؟ قاضی صاحب: جب ہم پڑھتے تھے اس اُس وقت میں مروج درجات نہیں تھے، چنانچہ اسکول کے بعد میں حضرت مولانا سید اصغر (عرف ما نیری مولوی صاحب) سے پڑھتا رہا، موقوف علیہ تک کتابیں آپ سے پڑھیں، پھر دار العلوم عربیہ مظہر الاسلام تورڈھیر میں حضرت مولانا شیخ شمس الہادی صاحب محمد صاحب ( عرف کابل مولوی صاحب) اور مولانا حمد اللہ صاحب بام شاه منصور و خیل والے ۔ اور نحو کی مختلف عالی ان کی کتابیں مثلاً ادب، معانی، منطق ، فلسفہ، صرف بار پھر پڑھا۔ رمضان المبارک میں مولانا فتح محمد صاحب کے پاس ان کے گاؤں جہانگیرہ میں منطق و فلسفہ کے عالی کتب پڑھنے ۔ کے لیے جاتا تھا ان سے مطول دوبارہ پڑھی، اس طرح مولانا شمس الہادی صاحب سے مسلم الثبوت پڑھی اور یاد کی ۔ جدون : فنون کے اساتذہ میں آپ کن اساتذہ سے زیادہ متاثر ہیں؟ اور فنون میں آپ کے اساتذہ کا منھج کیا تھا ؟ قاضی صاحب: جہاں تک تاثر کی بات ہے تو میں ہر استاد سے متاثر ہوں نیز ان کا منبج وہی تھا جو اسلاف سے چلا آ رہا ہے۔

جدون : دار العلوم حقانیہ میں کس سن میں داخل ہوئے اور دورہ حدیث میں کن کن اساتذہ سے استفادہ کیا ؟

قاضی صاحب: 75 /1974ء میں دار العلوم حقانیہ میں رہا، دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تو مادر علما ہے، یہاں پر دورہ حدیث میں حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحب ، مولانا عبد الحلیم صاحب زروبوی،مولانا مفتی محمد فرید صاحب، مولانا محمد علی سوائی، مولانا سید شیر علی شاہ صاحب اور مولانا سمیع الحق صاحب سے استفادہ کیا۔

جدون : مولانا سمیع الحق شہید کے اہتمام کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ قاضی صاحب مولانا سمیع الحق صاحب تو ہمارے دور سے بہت بعد اہتمام سنبھال چکے تھے۔ البتہ ان کے دور میں دار العلوم تعمیرات اور تعداد طلبہ کے حوالے سے بہت ہی آگے گیا۔۔۔۔۔

جدون ؛ فراغت کے بعد آج تک دار العلوم حقانیہ سے آپ کا تعلق کیسے رہا؟ قاضی صاحب: جہاں تک فراغت کے بعد تعلق کا سوال ہے تو دار العلوم ہماری مادر علمی ہے جس سے تعلق میں تو کوئی فرق نہیں آسکتا ، ہر سال جب امریکا سے آتا ہوں تو یہاں حاضری نصیب ہوتی ہے اور جامعہ میں درس اور تقریر کی سعادت ملتی ہے ، جامعہ کے تمام اساتذہ اور طلبہ مجھ سے بہت ہی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ جدون : آپ نے عصری علوم کن جامعات سے حاصل کیا؟ اور اس حوالے سے آپ کے تاثرات کیا ہیں؟ قاضی صاحب : عصری علوم میں نے پشاور یونیورسٹی اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کیا۔ اسلامک یونیورسٹی میں ، میں نے 1983/84 میں داخلہ لیا تھا، اسلامک یونیورسٹی کا سارا نظام اُس دور میں جامعہ ازھر اور جامعة القاہرہ کے اساتذہ اور منتظمین کے ہاتھ میں تھا۔ اسلامک یونیورسٹی میں طریقہ تدریس وہاں کے طرز کا اور نظام بہت منضبط اور سخت تھا اُس وقت اسلامک یونیورسٹی کی تعلیمی معیار بہت بلند تھا ، جب کہ اب مبینہ طور پر دیگر یونیورسٹیوں کی طرح ہو گیا ہے میں نے عصری جامعات میں اسلامیات ، عربی ، اقتصاد اور قانون پڑھا۔ جدون تفسیر میں کن مشائخ سے استفادہ کیا ؟ اور کہاں کہاں پر تفسیر یا دورہ تفسیر میں استفادہ کیا ؟ قاضی صاحب: رمضان میں شیخ القرآن مولانا عبد الہادی صاحب رحمہ اللّٰہ شاہ منصور سے ایک سے زیادہ بار دورہ تفسیر کیا اور آپ سے قرآنی علوم میں مستفید ہوا۔ تفسیر با قاعدہ شیخ القرآن مولانا عبدالهادی صاحب سے ایک سے زیادہ بار پڑھا اور ان سے زیادہ متاثر بھی ہوں، اس طرح شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب رحمہ اللّٰہ سے بھی تفسیر میں استفادہ کیا۔ تفسیری مناہج تو کئی ہیں تا ہم حضرت شیخ الشیخ مجتھد في القرآن حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمہ اللہ کا منہج ایک منفرد اور ممتاز منہج ہے اسی منہج پر ہمارے مشائخ پڑھاتے رہے۔ جدون : آپ کی شادی کب ہوئی اور اس وقت آپ کے کتنے بچے ہیں ؟ بچوں کی تعلیم کیا ہے اور اب وہ کیا کرتے ہیں؟ قاضی صاحب : شادی 1977 میں ہوئی ہے۔ الحمد للہ اب سات بچے ہیں، یعنی تین بیٹے اور چار بیٹیاں، سارے امریکا کی مختلف جامعات سے مختلف مضامین میں ماسٹرز کر چکے ہیں اور برسر روزگار ہیں۔ جدون :بیعت و سلوک میں آپ کا تعلق کس سے ہے؟ قاضی صاحب: میرا بیعت و ارشاد کا تعلق حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللّٰہ سے ہے۔۔۔۔۔

حصہ چہارم جدون: آپ قدیم و جدید کتابوں میں کن کتابوں سے زیادہ متاثر ہیں؟ اس طرح عالمی شخصیات میں آپ کن سے زیادہ متاثر ہیں اور کیوں؟ قاضی صاحب: میرے نزدیک ہر کتاب میں علم ہوتا ہے اور علم سے بطور ایک طالب علم کے متاثر رہا ہوں ۔ عالی شخصیات میں تو رول ماڈل رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ان سے متاثر ہونا ایمانی تقاضا ہے اور پھر جو جو حضرات آپ صلی اللہ علیہ کے علوم کے امین اور دین کے حاملین ہیں ان سے بقدر مراتب متاثر ہوں ۔

جدون : اس وقت امریکا میں آپ کی مصروفیات کیا ہیں اور آپ کتنا وقت مطالعہ کرتے ہیں؟

قاضی صاحب: ایک طالب علم ہونے کے ناطے میری زندگی دینی، علمی ، تدریسی اور اصلاحی مشاغل کا مجموعہ ہے۔ میرے مطالعہ کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں کہ جب بھی کوئی دوسری مصروفیت نہیں ہوتی تو مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور کسی نہ کسی موضوع پر لکھتا رہتا ہوں۔

جدون : دینی حوالے ممالک کے اہم مسائل کیا ہیں ؟ قاضی صاحب : ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ویلج بنا دیا ہے، کچھ انیس بیس کا فرق ہو گا سو مسائل ہر جگہ ایک جیسے ہیں جو مسائل مغرب میں ہیں اکثر وہی مسائل مشرق میں بھی ہوتے ہیں سوائے چند مسائل کے۔

جدون: آپ نے کتنے حج کیے ہیں؟ قاضی صاحب : بطور تحدیث بالنعمة کہتا ہوں اور اس میں کوئی تصنع یا مبالغہ نہیں، میں شمار کیے بغیر حج کرتا رہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔ جدون : کن کن ممالک کا سفر کیا ہے؟ کیا آپ کا کوئی سفر نامہ ہے یا لکھنے کا کوئی ارادہ ہے؟

قاضی صاحب : مشرق وسطی کے بہت سارے ممالک ، یورپی ممالک ، ساوتھ اور سنٹرل امریکا کے بعض ممالک اور مشرق میں ملائشیا کے اسفار کر چکا ہوں ، سفرنامہ تو نہیں البتہ آپ بیتی میں ان چیزوں کا مختصر تذکرہ موجود ہے جو اب تک غیر مطبوع ہے۔ جدون: آپ نے کہاں کہاں پر تدریس کی ہے؟ اور کون کونسی کتابیں پڑھاتی ہیں؟ قاضی صاحب تدریس تو 1975ء سے 1996 تک پاکستان میں کرتا رہا اور بعد ازاں جب امریکا گیا تو وہاں بھی تدریس کرتا رہتا ہوں میں نے کبھی کسی کو تمیز نہیں کہا ، ساتھی کہتا ہوں اور ہر طالب علم دین قابل ذکر ہے۔...

جدون ؛ آپ نے کتنے تفاسیر لکھی ہیں اور مناہیج کیا ہے؟ قاضی صاحب: تفاسیر تو پانچ لکھی ہیں ۔ ان میں پشتو کی تفسیر عام پشتونوں کے لیے ، اردو کی تفسیر اردودان طبقے کے لیے اور عربی کی تفسیر علما کو مد نظر رکھ کر لکھ لیے ہیں۔

جدون: آپ نے تفسیر کے علاوہ کونسی کتا میں لکھی ہیں؟ ان کا مختصر تعارف کریں؟ قاضی صاحب : کتابیں الحمد للہ بہت ساری ہیں، عربی ، انگلش ، پشتو، اردو میں، انھیں دیکھ کر کوئی بھی تبصرہ کر سکتا ہے۔ ( یہ کتابیں مولانا عباد اللہ صاحب رابطہ نمبر 03459371753 سے مل سکتی ہیں ) جدون : آپ نے شعبان ورمضان میں کتنے بار دورہ تفسیر پڑھائے اور کہاں کہاں پر پڑھائے ؟ قاضی صاحب پاکستان میں 1975 تا 1996 تک رمضان میں دورہ تفسیر پڑھاتا رہا جن میں قرآنی علوم کے شائقین جمع ہو کر مستفید ہوتے تھے۔ اس کے بعد جب امریکا گیا تو وہاں پر مسلسل تفسیر کے دروس ہوتے رہتے ہیں۔ جدون: آپ نے سیاست میں کب سے حصہ لیا ؟ اور کس سن میں آپ قومی اسمبلی کے ارکان بنے ؟ اس حوالے سے اپنے سیاسی احوال بیان کریں؟

قاضی صاحب: سیاست میں تو زمانہ طالب علمی سے تھے ۔ 1993ء میں ممبر قومی اسمبلی بنا اور احوال یہ کہ اس وقت سیاست میں کچھ شرافت، اقدار اور اخلاق نظر آتے تھے جو اب آہستہ آہستہ سیاسی میدان سے مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ جدون ؛ آپ عملی سیاست سے کیوں کنارہ کش ہوئے؟ قاضی صاحب: میں سیاست سے تو کیا ملک سے گیا تو اب کیا عملی سیاست کرنی ہے۔ جدون : کیا مغرب میں آپ جامعات میں جاتے ہیں اور مستشرقین سے آپ کا بالمشافہ ملاقات ہوتی ہے؟ قاضی صاحب : وقتا فوقتا باتیں ہوتی رہتی ہیں ہر قسم کے لوگوں سے ۔ جامعات میں بھی جاتا رہتا ہوں،سوال و جواب ہوتے ہیں اور سوال کے مطابق جواب دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی قبول فرمائے۔ جدون: اللہ تعالی نے آپ کو بڑی صلاحیت دی ہے، پاکستان میں تعلیمی سلسلہ کیوں شروع نہیں کرتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگ مستفید ہو سکیں ؟ قاضی صاحب میری بیوی امریکی ہے اور سرال والے سارے امریکی ہیں ۔ وہاں مسجد میں پڑھاتا رہتا ہوں ، جیسا یہاں پاکستان میں کرتا رہا اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔امین۔۔۔۔۔۔جاری ہے