قدیم پانچ نسلوں کا ماخذ

آج سے تقریباً ایک لاکھ سال قبل باشعور آدمی نے جدید آدمی میں ڈھلنا شروع کیا۔ باشعور آدمی کی پوری نسل ایک مشترکہ ذخیرہ تھی اور اس کے اندر متفرق نسلیں نہیں تھیں۔ آج سے تقریباً چالیس ہزار سال قبل ہمارے آبائ اجداد چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہ پھیلاؤ غالباً خوراک کی مسلسل تلاش کے نتیجے میں ہوا۔ بہت سارے لوگ ایک بڑے جانور کو مارنے کی کوشش میں اس کا پیچھا کرتے ہوئے کہیں دور نکل گئے۔ پھر واپس نہیں آئے اور آگے ہی آگے چلتے چلتے گئے یا جنگلی پھل اور سبزیاں اکھٹی کرتے ہوئے یا محض تجسس کے تحت مصروف سفر رہے۔ آخری برف بندی نے سمندری پانی کی سطح کم کردی۔ جس کے نتیجے میں کئی زمینی پل بے نقاب ہو گئے اور خانہ بدوش گروہ سائبیریا سے الاسکا پہنچے۔ جنوبی ایشیائ سے جاوا، سماٹرا و علیٰ ہذا القیاس، بارہ ہزار سے قبل کافی پہلے لوگ جغرافیائی طور پر الگ قبائل یا گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہوں گے۔ تقریباً تیس ہزار سال قبل بڑے لسانی گروہ بھی نمایاں ہو گئے تھے۔ جن میں ساٹھ یا اس سے بھی زیادہ شاخیں تھیں۔ آبادی کے مزید بکھراؤ سے مزید ہزاروں بولیاں نمودار ہوئیں ۔

مختلف علاقوں میں الگ الگ ہوکر بس جانے کی وجہ سے انسانی گروہوں کے اندر ارثیوں کی تعداد بھی محدود ہو گئی۔ کسی ایک گروہ کے اندر ارثیوں کی کل تعداد ارثیائی ذخیرہ GENE POOL کہلاتی ہے۔ اگر ایک طویل عرصہ تک ایک ارثیائی ذخیرہ ایک علاقے میں بیرونی اثرات سے محفوظ رہے۔ تو علاقے کے لوگوں کی جسمانی خصوصیات کا نمایاں ہوجانا فطری سے بات ہے۔ پھر ان جسمانی خصائص کو مزید ترقی خارجی حالات سے ملتی ہے۔ مثلاً موسم کی نوعیت، شیدید گرمی یا شدید سردی یا معتدل موسم، موسلا دھار یا بارشیں یا خشک سالی یا شدید برف باری وغیرہ خاص جسمانی صفات پیدا کرسکتی ہیں ۔

بنیادی طور پر جغرافیائی خطوں میں قدیم انسانوں کا پھیل جانا ہی اس بات کی سبب بنا کہ واحد نسل انسانی پانچ ضمنی نسلوں میں تقسیم ہو گئی، پھر اس سے آگے کئی نسلوں نے ظہور کیا۔ لیکن ہزاروں سالوں میں پیدا ہونے والے یہ نسلی امتیازات صرف ظاہری اور جسمانی ہیں۔ ان کا انسان کی باطنی صلاحیتوں یا اس کی برتری یا کمتری سے کوئی تعلق نہیں ہے، نسلی فخر و غرور بعد میں سماج کی زیادہ ترقی کے باعث ظہور پزیر ہونے والے استحصال کا مرحون منت ہے۔ جس میں بالادست استحصالی طبقات نے زیر دست طبقات کے خلاف تعصب کی دیواریں کھڑیں کیں اور اپنے دور کے طرز استحصال کو دائمی بنانے کے لیے نسلی فلسفے تشکیل دیے۔ لیکن تاریخ کا بہاؤ انسانی ذہن یا فلسفے یا نظریات کے تابع نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ساری چیزیں تاریخ کے بہاؤ کے تابع ہوتی ہیں۔ اس لیے غلام داری سماج کی نسل پرستی RACIALSM جو خاس جسمانی نسل پر جو خالص نسل پر اپنے امتیازات کو استوار کرتی تھیں یا جاگیری سماج کی ثقافتی نسل پرستی ETHNOCENTRISM جو پیشے کی بنیاد پر انسانی برتری اور کمتری پر یقین رکھتی تھی۔ دونوں ہی سماج کو اپنے ڈھنگ پر قائم و دائم رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ انسانی سماج، جمہوریت، مساوات اور استحصال کے خاتمے کے اعلیٰ خیالات تک پہنچ گیا ہے۔ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی نسل پرستی کی باقیات ہیں ساری دنیا ان کے خلاف جنگ آزما ہے۔ یہی آج کی دنیا کا غالب رجحان ہے ۔

نسلوں کا ارتقائ بھی اپنی اندرونی حرکیات اور بیرونی اثرات کے تحت نئی صورتوں کو جنم دے رہا ہے۔ بہت سی پرانی نسلیں کسی دوسری یا متفرق نسلوں میں ضم ہوکر معدوم ہوگئیں اور ان ملاپ سے کئی نئی نسلیں وجود میں آگئی ہیں اس طرح آج جو نسلیں نظر آ رہی ہیں ان میں سے بھی آئندہ بہت ساری نئی شکلوں کو جنم دے کے معدوم ہوجائیں گی اور ایسی نئی نسلیں وجود میں آجائیں گی جو آج دنیا میں وجود نہیں رکھتیں۔ یہی نسلیاتی ارتقائ کی جدولیات ہے، نسلوں کو ساکن و جامد سمجھ کر کھوجنا یا خالص نسلوں کو تلاش کرنا نسلیاتی مطالعے کا موضوعی اور غیر سائنسی طریق کار ہے۔ خاص کا تصور بھی اضافی ہے۔ آج جو خالص کہلاتا ہے وہ چند سو سال پہلے متفرق نسلوں کے ملاپ سے وجود میں آیا تھا۔ وعلیٰ ہذا القیاص ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور