قدیم ہند آریائی زبانیں

ہند آریائی کا قدیم دور 1500 ق م تا 500 ق م تک ایک ہزار سال کا لمبا دور ہے۔ محی الدین قادری زور کے بمطابق ویدک بھجنوں کے زمانہ تصنیف (جو ممکن ہے 1500 ق م سے 1200 ق م ہو) سے گوتم بدھ (577 - 477 ق م) کے عہد تک کے درمیانی دور کو قدیم ہند آریائی دور کہہ سکتے ہیں۔[1]

سنسکرت زبان کے ادوار

ترمیم

یہ سنسکرت زبان کا دور ہے۔ اس لمبے دور میں سنسکرت کی تین مختلف شکلیں خصوصی طور پر سامنے آتی ہیں۔

ویدک سنسکرت

ترمیم

قدیم ہند آریائی دور میں ہندوستان میں شمال مغرب تا مشرق جس زبان نے ارتقا پایا وہ سنسکرت زبان تھی۔ سنسکرت کے سب سے قدیم نمونے ہمیں ہندوستان کی مشہور مذہبی کتابوں یعنی ویدوں میں نظر آتے ہیں اس لیے اسے ویدک سنسکرت کہتے ہیں۔ ویدوں کے بعد دیگر مذہبی کتابیں جیسے براہمنیں اور اپنشد میں بھی اسی ویدک سنسکرت میں لکھی گئیں۔

کلاسیکی سنسکرت

ترمیم

ویدک سنسکرت کے بعد سنسکرت کی ادبی شکل کا ارتقا عمل میں آیا جسے دیر بندر ورما مصنوعی یا ادبی زبان کہتے ہیں۔[2] مہا بھارت اور رامائن جیسی کلاسیکل تصانیف کی تخلیق اسی سنسکرت زبان میں ہوئی تھی لہذا اسے کلاسیکی سنسکرت بھی کہا جاتا ہے۔ ا صوتی اور قواعدی اعتبار سے ویدک سنسکرت کلاسیکی سنسکرت سے مختلف ہے۔

سنسکرت کی علاقائی بولیاں

ترمیم

آریا لوگ داخلۂ ہند کے بعد جیسے جیسے شمال مغرب سے مشرق کی جانب بڑھتے گئے سنسکرت کی مرکزیت ختم ہوتی گئی اور اس کا ایک معیار پر قائم رہنا مشکل ہو گیا۔ نیز مقامی بولیوں کے ساتھ باہم میل جول کی وجہ سے اس کی تین علاقائی شکلیں قائم ہو گئیں جنھیں ادیچیہ، پراچیہ اور مدھیہ دیشہ کہتے ہیں۔ ان بولیوں کا تعلق عوام الناس سے تھا، کیونکہ منسکرت اپنے اصلی روپ میں ادبی اور مرصع بن چکی تھی۔[3]

  • ادیچیہ: یہ شمال مغربی خطے میں رائج آریوں کی ایک معیاری بولی تصور کی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں آج کل سندھی اور مغربی پنجابی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اس بولی میں 'ل' کی جگہ بھی 'ر' کا ہی استعمال کیا جاتا تھا۔
  • پراچیہ: یہ غیر معیاری بولی تھی جس میں آوازوں کا تلفظ بگاڑ دیا گیا تھا اور اس کا چلن مشرق میں تھا۔ موجودہ اودھ، مشرقی اترپردیش، بہار، بنگال اور اڈیشا اس کے زیر اثر علاقے تھے۔ مسعود حسین خاں کے مطابق "مغربی ہندوستان کے آریا ان پراچیہ بھاشا بولنے والے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور انھیں اسوُروںکی نسل سے تعبیر کرتے تھے۔"[4]
  • مدھیہ دیشہ: ادیچیہ اور پراچیہ کے درمیانی علاقوں کی بولی کو مدھیہ دیشہ کہا جاتا ہے۔ معیاری اعتبار سے یہ بولی ان دونوں بولیوں کے بیچ کی بولی کہی جاسکتی ہے کیونکہ یہ نہ تو ادیچیہ کی طرح بہت معیاری زبان تھی اور نہ پراچیہ کی طرح بالکل غیر معیاری۔ اس میں 'ر' اور 'ل' دونوں کی آوازیں موجود تھیں۔ مدھیہ دیشہ کا علاقہ وہی ہے جہاں آج کل مغربی ہندی کی بولیاں (کھڑی بولی، برج بھاشا، ہریانوی، بند یلی اور قنوجی) بولی جاتی ہیں۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. محی الدین قادری زور (2011)۔ ہندوستانی لسانیات۔ علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس۔ ص 62
  2. धीरेन्द्र वर्मा (1970). भाषा-विज्ञान (ہندی میں) (दूसरा ed.). इलाहाबाद: किताब महल. p. 133.
  3. گیان چند جین (1985)۔ عام لسانیات۔ نئی دہلی: ترقی اردو بیورو۔ ص 842
  4. مسعود حسین خان (1987)۔ مقدمۂ تاریخ زبان اردو (ساتواں ایڈیشن)۔ علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس۔ ص 11
  5. اکمل نعیم صدیقی (2024)۔ ہندوستان میں اردو۔ جودھ پور: احمر کریم پبلکیشن۔ ص 16–18۔ ISBN:978-9310004380