قرآن اور ارضیات (Geology) دراصل قرآن میں جدید ارضیات کے بارے میں معلومات اور انکشافات کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف ارضیات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آبیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔[1][2]

خیموں کی میخوں کی مانند پہاڑ

ترمیم

ارضیات (Geology) میں بل پڑے (Folding Phenamenon) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشرارض (Earth's Crust) میں بل پڑنے ہی کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آتے ہیں۔ قشرارض، جس پر ہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس گولے کی طرح ہے، جبکہ کرہ زمین کی اندرونی پر تیں (layers)، نہایت گرم اور مائع ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلو م ہو چکا ہے کہ پہاڑوں کے استحکام کا تعلق، قشر ارض پر پڑنے والے بل ہی ہیں جو پہاڑوں کا کام کرتے ہیں۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کا رداس (Radius) یعنی نصف قطر (Diameter) تقریباً 6035 کلومیٹر ہے اور قشرارض یعنی (Earth Crust)، جس پر ہم رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی 2کلو میٹر سے لے کر 35کلو میٹر تک ہے۔ چونکہ قشرارض بہت پتلی ہے، لہذا اس کے تھر تھرانے یا ہلنے کا امکان بھی زیادہ ہے، ایسے میں پہاڑ کسی خیمے کی میخوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ جو قشرارض کو تھام لیتے ہیں اور اسے استحکام (Stability) عطا کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے۔
اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدً ا ہ وَّالْجِبَا لَ اَوْ تَا دً ا ہ[3]
ترجمہ:۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔
یہاں عربی لفظ اوتاد کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی بلوں یا سلوٹوں کی گہری بنیادیں بھی یہی ہیں۔ ایک کتاب جس کا نام Earth ہے اور یہ دنیا بھر کی کئی جامعات (Universities) میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ بھی رکھتی ہے، اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس (Frank Press) کا بھی ہے، جو 12سال تک امریکا اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ جبکہ سابق امریکی صدرجمی کارٹر کے زمانے میں صدارتی مشیر بھی تھے۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل (Wedge Shape) جیسی شکل سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔[4][5]
ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشرارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پہاڑوں کے کاموں کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انھیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرزتے رہنے سے بچائیں:
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَ رْضِ رَوَسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِھِم [6]
ترجمہ:۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جمادیے تاکہ انھیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔
اسی طرح کے ارشادات سورة 31آیت 10سورة 10آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں، لہذا قرآن پا ک کے فراہم کردہ بیانات جدید ار ضیاتی معلوم سے مکمل طر پر ہم آہنگ ہیں۔

پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے

ترمیم

سطح زمیں متعدد ٹھوس ٹکڑوں یعنی پلیٹوں میں ٹوٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً 100کلو میٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر تیر رہی ہیں۔ اس حصے کو ایتسیو سفیر (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر آرض (Earth Crust) سمندروں کے نیچے 5کلو میٹر موٹی ہوتی ہے جبکہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی 35کلو میٹر ہوتی ہے۔ البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشرارضح کی موٹائی 80کلو میٹرتک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں پہاڑوں کی مضبوط بنیادوں کے بارے میں قرآن پاک نے درج ذیل آیت مبارکہ میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے۔
وَ الْجِبَا لَ اَرْ سٰھَا ہ[7]
ترجمہ:۔ اور پہاڑوں کو اس نے مضبوطی سے جما دیا۔
اسی طرح کا پیغام سورة نمبر 88آیت 19میں بھی دیا گیا ہے پس یہ ثابت ہوا کہ قرآن پاک میں پہاڑوں کی خصوصیت اور نوعیت کے بارے میں دی گئی معلومات بھی پوری طرح دور جدید کی ارضیاتی دریافتوں سے ہم آہنگ ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. قرآن اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحہ 20
  2. قرآن، بائبل اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرمارس بوکائے، صفحہ 165
  3. القرآن، سورة 78آیت 6تا 7
  4. زمین (Earth) از پریس اور سیور، صفحہ 435
  5. زمین کی سائنس (Earth science) از پریس اور سیور، صفحہ 157
  6. القرآن، سورة نمبر 21آیت 31
  7. القرآن، سورة نمبر 79آیت 32