قرآن اورجنینیات (Embryology) دراصل قرآن میں جدید جنینیات کے بارے میں معلومات اور انکشافات کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف جنینیات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود جنینیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔[1][2]

مسلمان جوابات کی تلاش میں

ترمیم

یمن کے معروف عالم، شیخ عبد المجید الزندانی کی قیادت میں،مسلما ن اس کا لروں کے ایک گروپ نے جنینیات اور دیگرسائنسی علوم کے بارے میں قرآن پاک اور مستند احادیث سے معلومات جمع کیں اور ان کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ پھرانہوں نے قرآن پاک کے ایک مشورے پر عمل کیا۔
فَسْئَلُوْا اَ ھْلَ الذِّ کْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْ نَ ہ[3]
ترجمہ:۔ اہل ذکرسے پوچھ لو اگر تم خود نہیں جانتے۔
جب قرآن پاک اور مستند احادیث مبارکہ سے جنینیات کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات یکجا نہوکر انگریزی میں ترجمہ ہوگئیں تو انھیں پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مورک (Keith L. Moore) کے سامنے پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر کیتھ مور، یونیورسٹی آف ٹورانٹو ( کینیڈا) میں ڈیپارٹمنٹ آف اناٹومی (Anatomy) کے سربراہ اور جنینیات (Embryology) کے پروفیس رہیں۔ آج کل وہ جنینیات (Embryology) کے میدان میں مقتدر اورمعتبر ترین شخصیت بھی ہیں۔ ان سے کہا گیا،کہ وہ ان کو پیش کیے گئے علمی مواد کے بارے میں اپنی رائے دیں۔ محتاط مطالعے کے بعد ڈاکٹر کیتھ مور نے کہا کہ جنینیات کے متعلق آیات قرآنی اور مستنداحادیث میں بیان کردہ تقریباً تمام معلومات جدید سائنسی دریافتوں سے ہم آہنگ ہیں۔ جدید جنینیات سے ان کا بھرپور اتفاق ہے اور وہ کسی بھی طرح جدید جنینیات سے اختلاف نہیں کرتیں۔ انھوں نے مزید کہاہے کہ البتہ بعض آیات ایسی بھی ہیں۔ جن کی سائنسی درستی کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ آیات ( سائنس کی مطابقت میں) صحیح ہیں یا غلط کیونکہ خود انھیں ان آیات میں دی گئی معلومات کے متعلق کچھ علم نہیں۔ ان کے متعلق جنینیات کے جدید مطالعات اور مقالہ جات تک میں بھی کچھ موجود نہیں تھا۔ ایسی ہی ایک آیت مبارکہ درج ذیل ہے۔
اِ قًرَاْ بِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ہ خَلَقَ الْاِ نْسَا نَ مِنْ عَلَقٍٍ ہ [4]
ترجمہ:۔ پڑھو ( اے نبیۖ ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جس نے جمے ہو ئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔
یہاں عربی لفظ علقَ استعمال ہوا ہے جس کا ایک مطلب تو خون کا لوتھڑا ہے جبکہ دوسرا مطلب کوئی ایسی چیز ہے جو چمٹ جاتی ہو یعنی جونک (Leech) جیسی کوئی شے ہو۔ ڈاکٹرکیتھ مور کو علم نہیں تھا کہ حمل کے ابتدائی مرحلوں میں جنین ( Embryo) کی شکل جونک (leech) جیسی ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے انھوں نے نہایت طاقتور اور حساس آلات کی مدد سے جنین کے ابتدائی مراحل کا بڑے محتاط انداز میں مطالعہ کیا اور پھر ان تصاویر کا موازنہ جونک کے خاکے سے کیا۔ وہ ان دونوں کے درمیان غیر معمولی مشابہت دیکھ کرحیران رہ گئے۔ اسی طرح انھوں نے جنینیات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں جو قرآن پاک سے تھیں اور جن سے وہ قبل ازیں واقف نہیں تھے۔ ڈاکٹر کیتھ مورے جنینیاتی معلومات سے متعلق قرآن وحدیث سے حاصل شدہ مواد رپر تقریباً ٨٠سوالوں کے جوابات دئے۔ قرآن وحدیث میں جنینیات کے حوالے سے موجود علم صرف جدید سائنسی معلومات سے ہم آہنگ ہی نہ تھا بلکہ بقو ل ڈاکٹرکیتھ مور، اگر آج سے تیس سال پہلے مجھ سے یہی سب سوالات پوچھے جاتے تو سائنسی معلومات کی عدم موجودگی کے باعث میں ان میں سے آدھے سوالات کے جوابات بالکل بھی نہیں دے سکتا تھا۔ ١٩٨١ء میں دمام ( سعودی عرب) میں منعقد ہ ساتویں طبی کانفرنس (Medical Conference) کے دوران ڈاکٹر کیتھ مورنے کہا میرے لیے نہایت خوشی کا مقام ہے کہ میں نے قرآن میں انسان کی ( دوران حمل) نشو و نما سے متعلق پیش کردہ نکات کی وضاحت کرنے میں مدد کی۔ اب مجھ پر یہ واضح ہو چکاہ ے کہ یہ ساری معلومات محمّد ۖ تک خدا یا اللہ نے پہنچائی ہیں کیونکہ کم وبیش یہ سارا علم ( نزول قرآن کے ) کئی صدیوں بعد ہی دریافت کیا گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ محّمد بلاشبہ خدا یا اللہ کے رسول ہی تھے۔
قبل ازیں ڈاکٹر کیتھ مور ایک کتاب دی ڈیویلوپنگ ہیومن (The Developing Human) کے نام سے لکھ چکے تھے۔ قرآن پاک سے نئی معلومات حاصل ہو جانے کے بعد انھوں نے ١٩٨٢ء میں اسی کتاب کا تیسرا ایڈیشن (اشاعت) مرتب کیا۔ اس ایڈیشن کو عالمی پزیرائی حاصل ہوئی اور اس کتاب نے اُسی سال کسی ایک مصنف کی لکھی ہوئی بہترین طبی کتاب کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ یہ کتاب دنیا کی کئی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور اسے میڈیکل کی تعلیم کے پہلے سال میں ایک نصابی کتاب کے طور پر بھی پڑھایا جاتا ہے۔[5]
ڈاکٹر جولی سمپسن (Joe Leigh Simpson) بیلر کالج آف میڈیسن، ہیوسٹن ( امریکا) میں شعبہ حمل وزچگی (Obstetrics & Gynaecology) کے چیئرمین ہیں ان کا کہنا ہے
یہ احادیث، محمدۖ کی کہی ہوئی باتیں، کسی بھی طرح مصنف کے زمانے ( ساتویں صدی عیسوی) میں دستیاب سائنسی معلومات کی بنیاد پر پیش نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ان سے نہ صرف یہ معلوم ہوا کہ علم الخلق (genetics) اور مذہب (یعنی اسلام) میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ بھی پتا چلا کہ مذہب (اسلام) اس طرح سے سائنس کی رہنمائی کرسکتاہے کہ روایتی سائنسی انداز نظر میں کچھ الہامی انکشافات بھی شامل کرتا چلا جائے۔ قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جن کی توثیق کئی صدیوں بعد ہوئی۔ جس سے اس ( یقین) کو تقویت ملتی ہے کہ قرآن میں دیا گیا علم واقعی خداکی طرف سے آیا ہے ۔

ریڑھ کی ہڈی اور پسلیو ں کے درمیان سے خارج ہونے والا قطرہ

ترمیم

فَلْیَنْظُرِ الْاِ نْسَا نُ مِمَّ خُلِقَ ط ہ خُلِقَ مِنْ مَّآ ئٍٍ دَ افِقٍٍِِ ہ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَ آ ئِبِ ط ہ[6]
ترجمہ:۔پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے۔
جُنینی مراحل (embryonic stages) میں مردانہ وزنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے (testicle) اور بیضہ دان(Ovary) گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہوں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نموپذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعد ازاں وہ کچھ نیچے اُتر آتے ہیں، زنا تولیدی غدود (gonads) یعنی بیضہ دانیاں پیڑو (pelvis) میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولید (inguinal canal) کے راستے خصیہ دانی (scrotum) تک جاپہنچتے ہیں۔ حتٰی کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑوالی بڑی رگ (Abdominal aorta) کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ لمفی نکاس (Lymphetic drainage) اور خون کا وریدی بہاؤ بھی اس سمت ہوتا ہے۔

نطفہ: مائع کی معمولی سی مقدار

ترمیم

قرآن کریم میں کم ازکم گیارہ مرتبہ کہا گیاہے کہ انسان کو نطفہ سے تخلیق کیا گیا ہے جس کا مطلب مائع کی نہایت معمولی مقدار یا پیالہ خالی ہوجانے کے بعداس میں لگا رہ جانے والا مائع ہے۔ یہ بات قرآن عالی شان کی کئی آیات مبارکہ میں وارد ہوئی ہے جن میں سورة٢٢آیت٥، سورة ٢٣آیت١٣کے علاوہ سورة ١٦آیت ٤ ،سورة ١٨آیت ٣٧، سورة٣٥آیت ١١، سورة ٣٦آیت ٧٧، سورة ٤٠آیات ٦٧، سورة٣ ٥آیت٤٦، سورة ٧٦ آیت ٢، سورة ٨٠ آیت ١٩شامل ہیں۔
سائنس نے حال ہی میں یہ دریافت کیا ہے کہ بیضے ( Ovum) کو بارآور کرنے کے لیے اوسطاً تیس لاکھ خلیات نطفہ (sperms) میں سے صرف ایک کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ خارج ہونے والے نطفے کی مقدار تیس لاکھواں حصّہ یا 0.00003 فیصد مقدار ہی بارآوری ( حمل ٹھہرانے ) کے لیے کافی ہوتی ہے۔

سُلٰلَة مائع کا جوہر

ترمیم

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآ ء مَّھِیْنٍ ہ [7]
ترجمہ:پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح ہے ۔
عربی لفظ' سُللة' سے مراد کسی مائع کا بہترین حصہ خلاصہ یا جوہر ہے۔ ا ب ہم جان چکے ہیں کہ زنانہ بیضے کی بار آوری (fertilization) کے لیے مرد سے خارج ہونے والے لاکھو ں کروڑوں خلیات نطفہ میں سے صرف ایک کی خلیہ نطفہ کو قرآن پاک نے سللة کہاہے۔ اب ہمیں یہ بھی پتا چل چکا ہے کہ عورت میں پیدا شدہ ہزاروں بیضوں (ovam) میں سے صرف ایک ہی بارآور ہوتاہے۔ ہزاروں میں سے اسی ایک بیضے کے لیے ( جو بارآور ہوتا ہے ) قرآن پاک نے سللة کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لفظ کا ایک اور مفہوم کسی مائع سے (کسی چیزکا) بڑی احتیاط سے اخراج بھی ہے۔ اس مائع سے مراد زنانہ اور مردانہ دونوں طرح کے تولیدی مائعات بھی ہیں جن میں صنفی تخم (gametes) موجود ہوتے ہیں۔ بارآوری کے مرحلے کے دورا ن نطفہ خلیہ اور بیضہ دونوں ہی اپنے اپنے ماحول سے بہ احتیاط جدا ہوتے ہیں۔

نُطْفَةٍ اَمْشَاج۔۔۔ باہم ملے ہوئے مائعات

ترمیم

اِ نَّا خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَا ج
ترجمہ:۔ہم نے انسان کو ایک مخلوط(آپس میں ملے ہویے) نطفے سے پیداکیا۔[8]
عربی لفظ نُطْفَہٍ اَمْشاج کامطلب، ملے ہوئے مائعات ہے، بعض مفسرین کے نزدیک ملے ہوئے مائعات سے مراد عورت یا مرد کے ( تولیدی) عامل (agent) یا مائعات ہیں۔ مردانہ اور زنانہ صنفی تخم (Gametes)کے باہم مل جانے کے بعد بننے والا جفتہ (zygote) بھی ابتدا میں نطفہ ہی رہتا ہے۔ باہم ملے ہوئے ( ہم آمیز) مائعات سے ایک اور مراد وہ مائع بھی ہو سکتاہے جس میں خلیات نطفہ تیر رہے ہوتے ہیں۔ یہ مائع کئی طرح کی جسمانی رطوبتوں (fluids)سے مل کربنتاہے جو کئی جسمانی غدود (glands)سے خارج ہوتی ہیں۔
لہذا نطفةٍ امشاج یعنی آپس میں ملے ہوئے مائعات کے ذریعے مردانہ و زنانہ صنفی مواد (تولیدی مائع یا خلیات) اور اس کے اردگرد مائعات کے کچھ حصّے کی جانب اشارہ کیاجا رہا ہے۔

جنس کاتعین

ترمیم

پختہ جنین( foetus)کی جنس کا تعین ( یعنی اس سے لڑکا پیدا ہو گا یا لڑکی) نُطفہ کے خلیے ( sperm) سے ہوتا ہے نہ کہ بیضے (ovum) سے۔ مطلب یہ کہ رحم مادر میں ٹھہرے والے حمل سے لڑکا پیدا ہو گا یا لڑکی اس کا انحصار کروموسوم کے 32 ویں جوڑے میں بالترتیب xx / xy کروموسومز کی موجودگی پرہوتاہے۔ ابتدائی طور پر جنس کا تعین بارآوری کے موقع پر ہی ہو جاتاہے اور اس کا انحصار خلوی نطفے (sperm) کے صنفی کروموسوم chromosomes) sex) پر ہوتا ہے۔ جو بیضے کو بارآور کرتا ہے۔ اگر بیضے کو بارآورکرنے والے سپرم (sperm) میں x صنفی کروموسوم ہے تو ٹھہرنے والے حمل سے لڑکی پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر اسپرم (sperm) میں صنفی کروموسوم y ہے تو حمل کے نتیجے میں لڑکا پیدا ہوگا۔
وَ اَنَّہ خَلَقَ الذَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَ الْاُ نْثٰی ہ مِنْ نُّطْفَةٍ اِ ذا تُمْنٰی ہ [9]
ترجمہ:۔ اوریہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا، ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔
یہاں عربی لفظ نطفہ کا مطلب تو مائع کی نہایت قلیل مقدار ہے جبکہ تمُنٰی کا مطلب شدت سے ہونے والا اخراج یا پودے کی طرح بوئی گئی کوئی چیز ہے لہذا نطفہ بطور خاص اسپرم (sperm) ہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کیونکہ یہ شدت سے خارج ہوتاہے ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے۔
اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنٰی ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُ نْثٰی ط ہ [10]
ترجمہ:۔ کیا وہ ایک حقیرپانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادرمیں) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھروہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ تعالی نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضاء درست کیے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنائیں۔
ملاحظہ فرمایئے کہ یہاں ایک بار پھر یہ بتایا گیاہے کہ نہایت قلیل مقدار ( قطرے) پر مشتمل مادہ تولید (جس کے لیے عربی عبارت نُطْفَةًمّن مَّنِیٍّ وارد ہوئی ہے ) جو مرد کی طرف سے آتا ہے۔ اور یہ رحم مادر میں بچے کی جنس کے تعین کا ذمہ دار ہے۔
برصغیرمیں یہ افسوس ناک رواج ہے کہ عام طور پر ساسوں کو پوتیوں سے زیادہ پوتوں کا ارمان ہوتا ہے۔ اور اگر بہو کے ہاں بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پیدا ہو رہی ہوں تو وہ انھیں اولادِ نرینہ پیدا نہ کر سکنے پر طعنہ دیتی ہیں۔ اگر انھیں صرف یہی پتہ چل جاتا کہ اولادکی جنس کے تعین میں عورت کے بیضے کا کوئی کردار نہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری مردانہ نطفے (sperm) پر عائد ہوتی ہے اور اگر پھربھی وہ لعن طعن پر آمادہ ہو تو انھیں چاہیے کہ وہ (اولادِنرینہ کے نہ ہونے پر) اپنی بہوؤں کی بجائے اپنے بیٹوں کو طعنہ دیں۔ قرآن پاک اور جدید سائنس دونوں اس بات پر متفق ہے کہ بچے کی جنس کا تعین میں مردانہ تولیدی مواد ہی ذمہ دار ہے، عورت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔

تین تاریک پردوں کی حفاظت میں رکھاگیا جنین (foetus)

ترمیم

یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْ نِ اُ مَّھٰتِکُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ط [11]
ترجمہ:۔ اسی نے تم کو ایک جان سے پیداکیا پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمھارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے۔ اور وہ تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین باریک پردوں کے اندرتمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمھارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے۔ پھر تم کدھر جا رہے ہو۔
پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور(Keith L. Moore) کے مطابق قرآن پاک میں تاریکی کے جن تین پردوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
١۔ شکم مادر کی اگلی دیوار
٢۔ رحمِ مادر کی دیوار
٣۔ غلافِ جنین اور اس کے گرد لپٹی ہوئی جھلی (amnio-chorionic membrane)

جنینی مراحل (Embryological stages)

ترمیم

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍٍ ہ ثُمَّجَعَلْنٰہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَ ارٍٍ مَّکِیْنٍٍ ہ ثُمَّ خَلَقْنَا ا لنطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَْْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْ نَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْ نٰہُ خَلْقًا اٰ خَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ہ ط[12]
ترجمہ:۔ اوریقینا ہم نے انسا ن کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے نطفہ بناکر ایک محفوظ جگہ (رحم مادر) میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو خون کا ایک لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کو گوشت کی بوٹی بنایا پھرہم نے لوتھڑے کو ہڈیاں بنادیا۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنایا پھر ہم نے اسے ایک نئی صورت دے دی۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیداکرنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان مائع کی حقیر مقدار سے تخلیق کیا گیا جسے امن کی جگہ پر رکھا جاتا ہے۔ مضبوطی سے جمایا ہوا (خوب مستحکم یا ٹھہرایا گیا) جس کے لیے عربی لفظ قرار مکین استعمال ہوا ہے۔ رحم مادر پچھلی جانب سے ریڑھ کے مہروں کے ستوں سے اچھی طرح محفوظ کیا گیا ہوتاہ ے جسے کمر کے پٹھے مضبوطی سے سہارا دیتے ہیں۔ جنین ایمنیاٹک فلویڈ (amniotic fluid) سے بھرے ایمنیاٹک سیک (amniotic sac) سے مزید محفوظ بنایا گیا ہوتا ہے۔ چنانچہ جنین (foetus) کی ایک بہترین محفوظ دینے کی جگہ ہوتی ہے۔ سیال (fluid) کی اس قلیل مقدار کو 'علقہ' میں تبدیل کیا جاتاہے یعنی ایسی چیز جو چپک جاتی ہے۔ اس سے جونک (Leech) جیسی چیز بھی مراد ہے۔ یہ دونوں تعریفیں سائنسی طور پر قابل قبول ہیں کیونکہ بالکل ابتدائی مراحل میں جنین (رحم مادر کی) دیوار سے چپک جاتا ہے اور شکل کے لحاظ سے جونک سے بھی مشابہ ہوتاہے۔ یہ جونک ہی کی طرح رویہ رکھتا ہے ( خون چوسنے والا) اور اپنی خونی رسد ناف کے ذریعے ماں سے حاصل کرتاہے۔
'علقہ' کا تیسرا مطلب ہے جما ہوا خون۔ اس علقہ کے مرحلے کے دوران جو حمل کے تیسرے اور چوتھے ہفتے پر محیط ہوتاہ ے خون بند نالیوں میں جم جاتا ہے چنانچہ جنین جونک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آسانی سے دستیاب ہونے والے اس قرآنی علم کا سائنسی دریافتوں کے لیے انسانی محنت کے ساتھ موازنہ کرلیجئے۔
١٦٧٧ء میں ہیم اور لیون ہک (hamm& leewenhoek) وہ پہلے سائنس دان تھے جنھوں نے ایک خوردبین کے ذریعے اسانی تولیدی خلیوں کا مشاہدہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ سپرم کے اندر انسان کا ایک مختصر نمونہ ہوتاہے۔ جو ایک نوزائیدہ بچے کی شکل پانے کے لیے رحم کے اندر نشو و نما پاتا ہے۔ یہ پرفوریشن تھیوری (perforation theory) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ جب سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ بیضہ (ovum) یعنی مادہ تولیدی مادہ) سپرم (sperm) سے جسامت میں بڑا ہوتاہے تو ڈی گراف (De Graf)اور دوسرے سائنسدانوں نے سوچاکہ جنین (foetus) ایک چھوٹے نمونے کی شکل میں بیضہ کے اندر موجود ہوتا ہے۔ بعد ازاں اٹھارویں صدی میں ماپر چو یئس (Maupertuis) نے مادرپدر دوطرفہ وراثت کا نظریہ پیش کیا۔
'علقہ' ' مُضغہ' میں تبدیل ہوتاہے۔ جس کا مطلب ہے ایسی چیز جو چبائی گئی ہو (جس پر دانتوں کے نشان ہو) اور ایسی چیز بھی جو نرم چپکے والی ہو اور گم (gum)کی طرح منہ میں رکھی جا سکے۔ یہ دونوں وضاحتیں سائنسی طورپردرست ہیں پروفیسر کیتھ مور (keith moore) نے پلاسٹر سیل(plaster seal) کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جنین کے ابتدائی مرحلے کی جسامت اور شکل دی اور اسے مضغہ بنانے کے لیے دانتوں کے درمیان چبایا۔ انھوں نے اس کا تقابل جنین کے ابتدائی مرحلے کی تصاویر سے کیا۔ دانتوں کے نشان سومائٹس(somites) سے مشابہ تھے جو ریڑھ کی ہڈی کی ابتدائی بناوٹ ہے۔ یہ مضغہ ہڈیوں ( عظام) میں تبدیل ہوتاہے ہڈیاں سالم گوشت یا پٹھوں (لحم) سے لپٹی ہوتی ہیں۔ پھر اللہ تعالی اس کو ایک دوسری تخلیق میں ڈال دیتا ہے۔ پروفیسر مارشل جانسن (Marshal Johnson) جو امریکا کے سرکردہ سائنس دانوں میں سے ایک ہیں اور اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور تھا مس جیفر سن یونیورسٹی فلاڈلفیا امریکا کے ڈینیل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے علم الجنین (embroyology) سے متعلق قرآنی آیات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ابتدا میں انھوں نے کہا کہ جنین کے مراحل سے تعلق رکھنے والی قرآنی آیات محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ محمد ۖکے پاس کوئی طاقت ورخوردبین ہو۔ یہ یاد دلانے پرکہ کہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا اور خوردبینیں پیغمبر محمدۖ کے زمانے سے کئی صدیاں بعد ایجاد کی گئیں۔ پروفیسر جانسن ہنسے اور یہ تسیلم کیا کہ ایجاد ہونے والی اولین خوردبین بھی دس گنا سے زیادہ بڑی شبیہ (image) دکھانے کے قابل نہیں تھی اور اس کی مدد سے واضح ( خردبینی) منظر بھی دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ بعد ازاں انھوں نے کہا: سردست مجھے اس تصوّرمیں کوئی تنازع د کھائی نہیں دیتا کہ جب محمدۖ نے قرآن پاک کی آیات پڑھیں تو اُس وقت یقینا کوئی آسمانی ( الہامی ) قوت بھی ساتھ میں کارفرما تھی ۔
ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جنینی نشو و نما کے مراحل کی وہ درجہ بندی جو آج ساری دنیا میں رائج ہے آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر مرحلے کو ایک عدد( نمبر) کے ذریعے شناخت کیا جاتاہے۔ مثلاً مرحلہ نمبر1، مرحلہ نمبر2،وغیرہ۔ دوسری جانب قرآن پاک نے جنینی مراحل کی جو تقسیم بیان فرمائی ہیں، اس کی بنیادجداگانہ اور آسانی سے شناخت کے قابل حالتوں یا ساختوں پر ہے۔ یہی وہ مراحل ہیں جن سے کوئی جنین مرحلہ وار انداز میں گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حالتیں ( ساختیں) بھی قبل از ولادت نشو و نما کے مختلف مراحل کی علمبردار ہیں اور ایسی سائنسی توضیحات (وضاحتیں) فراہم کرتی ہیں۔ جو نہایت عمدہ اور قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت بھی رکھتی ہیں۔ رحم مادرمیں انسانی جنین کی نشو و نما کے مختلف مراحل درج ذیل آیات مبارکہ میں بھی بیان فرمائے گئے ہیں:
اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنٰی ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُنْثٰی ط ہ[13]
ترجمہ: کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا ء درست کیے۔ پھر اس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنائیں۔
الَّذِ یْ خَلَقَکَ فَسَوّٰ کَ فَعَدَ لَکَ ہ فِیْ اَیِّ صُوْ رَ ةٍ مَّا شَآ ء رَ کَّبَکَ ط[14]
ترجمہ۔ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تجھے درست کیا، تجھے تناسب سے بنایا اور جس صورت میں چاہاتجھ کوجوڑ کرتیار کیا۔

نیم مکمل اورنیم نامکمل جنین(Embryo)

ترمیم

اگر' مضغہ' کے مرحلے پر جنینن کو درمیان سے کاٹاجائے اور اس کے اندرونی حصّوں کا مطالعہ کیاجائے توہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ (مضغہ کے اندرونی اعضاء میں سے ) بیشتر پوری طرح بن چکے ہیں جبکہ بقیہ اعضاء اپنی تکمیل کے مرحلے سے گذر رہے ہیں۔ پروفیسر مارشل جونسن (Prof. Marshal Johnson) کا کہنا ہے کہ اگر ہم پورے جنین کو ایک مکمل بنے ہوئے وجود کے طور پر بیان کریں تو ہم صرف اسی حصّے کی بات کر رہے ہوں گے جو پہلے سے مکمل ہو چکا ہے اور اگر ہم اسے نامکمل وجود کہیں تو پھرجنین کے ان حصّوں کا حوالہ دے رہے ہو گے جو ابھی پوری طرح سے مکمل نہیں ہوئے بلکہ تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس موقع پر جنین کو کیا کہنا چاہیے : مکمل وجود یا نامکمل وجود؟ جنینی نشو و نما کے اس مرحلے کی جو وضاحت قرآن پاک نے ہمیں دی ہے اس سے بہتر کوئی اور ممکن نہیں۔ قرآن پاک اس مرحلے کو نیم مکمل اورنیم نامکمل قرار دیتا ہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَ ابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ ط[15]
ترجمہ: ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیاہے۔ پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے جو مکمل (بھی) ہوتی ہے اور نا مکمل بھی۔

سننے اور دیکھنے کی حِسّیات(Senses)

ترمیم

رحم مادرمیں نشو و نما پانے والے انسانی وجود میں سب سے پہلے جو حس جنم لیتی ہے وہ سننے کی حس (حسِ سامعہ) ہوتی ہے۔ ٢٤ ہفتوں بعد کا پختہ جنین ( foetus) آواز یں سننے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پھر حمل کے ٢٧ ویں ہفتے تک دیکھنے کی حسِ( بصارت) بھی وجود میں آجاتی ہے اور پردہ چشم ( Retina) روشنی کے لیے حساس ہو جاتاہے ان مراحل کو قرآن پاک یوں بیان فرماتاہے؛۔
وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَ بْصَارَ وَ الْاَفِْئدَ ةَ ط [16]
ترجمہ:۔ اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور سمجھنے کی صلاحیت دی۔
اِ نَّا خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَا جٍٍٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرً ا ہ[17]
ترجمہ۔: ہم نے انسان کوایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس فرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔
وَ ھُوَ الَّذِ یْ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَ بْصَارَ وَا لْاَ فْدَئِ ةَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ہ[18]
ترجمہ:۔ وہ اللہ ہی ہے جس ے تمھیں دیکھنے اورسننے کی قوتیں دیں اور سوچنے اور سمجھنے کی صلا حیت دی ہے۔(لیکن) تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔
ملاحظہ فرمائیے کہ تمام آیات مبارکہ میں حِس سماعت کا تذکرہ حسِ بصارت سے پہلے آیا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ قرآن پاک کی فراہم کردہ توضیحات کے جدید جننیات میں ہونے والی دریافتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. قرآن اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحات 34
  2. قرآن، بائبل اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹرمارس بوکائے، صفحہ 125
  3. القرآن، سورة النحل، سورة ١٦: آیت ٤٣
  4. القرآن، سورة العلق، سورة ٩٦: آیات ١ تا ٢
  5. مصنّف، ڈاکٹر کیتھ مور (Keith L. Moore): ,دی ڈیویلوپنگ ہیومن (The Developing Human)
  6. القرآن، سورة الطاّرق، سورة 86: آیات 5تا7
  7. القرآن، سورة السجدّہ ٣٢: آیت ٨
  8. القرآن : سورة ٧٦، آیت ٢
  9. القرآن : سورة 53، آیات 46-45
  10. القرآن : سورة ٧٥، آیات ٣٧تا ٣٩
  11. القرآن، سورة 39: آیت6
  12. القرآن، سورة ٢٣: آیات ١٤تا١٢
  13. القرآن، سورة ٧٥: آیات ٧ ٣تا٣٩
  14. القرآن، سورة ٨٢: آیات ٧ تا٨
  15. القرآن، سورة حج، سورة ٢٢: آیت ٥
  16. القرآن، سورة ٣٢: آیت ٩
  17. القرآن، سورة ٧٦: آیت ٢
  18. القرآن، سورة ٢٣: آیت ٧٨