قطب الزمان سید علوی رحمہ اللہ
قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ
ترمیمآپ کی ولادت
ترمیمیمن کا تریم علاقہ اور اس کے اطراف کے علاقے پورے حضور سید المرسلین کے اہل و عیال سے بھرا ہوا ہے۔ اور جتنے بھی قبیلہ حضریہ کے جتنے بھی سادات کرام سرزمین ملیبار میں تشریف لائے سب کے سب یمنی ہیں۔ اور ان سادات کرام کی خصوصیتیں یہ تھی کہ انھوں نے اپنے زندگی کا پورا وقت دعوت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ میں صرف کر دیا۔ اور انہی سادات کرام میں سے سہل بن محمد رحمہ اللہ کا نام سرفہرست ہے۔ اور پورے لوگ انہی سے بربیت و تزکیت حاصل کرتے تھے۔ اور انہی سے اپنے ماسائل کا استفسار کیا کرتے تھے۔ اور اگر یمن میں دین کے معاملے میں کچھ بڑا مسئلہ ہوتا تھا تو انہی اولیاء اللہ سادات کرام کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ کے والد کا نام سہل بن محمد ہے اور والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ ہے‘ جو یمن کے مشہور قبیلہ حضریہ سے تعلق رکھتی تھی اور آپ کے دادا کا نام محمد بن سہل ہے۔
قطب الزمان سید علوی رحمہ اللہ کی پیدائش 23 ذی الحجہ 1167ھجری کو بروز سنیچر کے دن شہر حضرموت کے قریہ تریم میں ہوئی۔ چھوٹی ہی عمر میں والدین کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا۔ پھر آپ کی خالہ نے آپ کی کفالت کی اور وہیں دین کے ماحول میں شریفت اسلامیہ کے عین نہج پر آپ کی پرورش ہوئی اور آپ نے اپنے وقت کے بڑے بڑے علما کرام کے سامنے زانوئے تلمذ کا شرف حاصل کیا۔ اور آپ اہل سنت و الجماعت کے طریقہ پر آپ نے تربیت حاصل کی۔ ااور آپ اپنے ہم عمروں کے درمیان اپنے اخلاق کریمہ کی وجہ سے ممتاز ہو گئے حالاں کہ آپ کے صبر و عقلمندی اور حکمت و دانائی میں آپ کوئی نظیر نہیں تھا۔ اور طالب علمی کے زمانہ سے ہی آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل کود وغیرہ سے دور رہا کرتے تھے۔ اور اسی سبب کی وجہ سے آپ نے آٹھ سال کے عمر ہی میں آپ نے قرآن کریم کا حفظ مکمل کر لیا اور آپ نے اپنے وطن ہی میں اپنے خاندان کے جلیل القدر علما سے علم اصول و فروع‘ علم تصوف اور علم تزکیہ کی تعلیم مکمل کرلی تھی۔ اور یہ سب حاصل کرنے میں آپ کا ساتھ جو ہمیشہ دی وہ آپ کی خالہ سیدہ حامدہ تھی۔
اور جب قطب الزمان سید علوی کو ماموں اور ماموں کے بیٹے کے بارے میں علم ہوا کہ وہ دونوں ہندوستان کے ساحلی علاقہ کیرلا میں دین اسلام کی تبلیغ کے لیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے آپ کے اندر بھی دین اسلام کی نشر و اشاعت کا جذبہ اور شوق امڈ آیا۔ پر وہاں جانے سے پہلے آپ نے اس بات کی خبر اپنی خالہ کو دی جو آپ کی پرورش کیا کرتی تھی اور انھوں نے ان کے ماموں کے پاس بھیجنے کے لیے تیار بھی ہو گئی۔
آپ کا نسب مبارک
ترمیماور آپ کا نسب مبارک حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ اور درج ذیل میں آپ کا نسب مبارک ذکر کیا جارہا ہے۔
سید علوی مولی الدویلۃ بن سید محمد بن سید سہل بن سید محمد بن سید احمد بن سید سلیمان بن سید عمر بن سید محمد بن سید سہل بن سید عبد الرحمن بن سید عبد اللہ بن سید علوی بن سید محمد مولی الدویلۃ بن سید علی بن سید علوی بن سید محمد الفقیہ المقدم بن سید علی بن سید محمد صاحب مرباط بن سید علی خالع القسم بن سید علوی بن سید محمد مولی الدویلۃ بن سید علوی بن سید عبید اللہ بن سید احمد المہاجر الی اللہ بن سید عیسی النقیب بن سید محمد بن سید علی العریضی بن سیدنا جعفر الصادق بن سیدنا محمد الباقر بن سیدنا علی زین العابدین بن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بن سیدتنا فاطمۃ الزہراء بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
ملیبار کی طرف روانگی
ترمیمجب آپ نے اپنے وطن کو خیر آباد کرنا چاہا اور سرزمین کیرلا کی طرف سفر باندھا اس وقت آپ کی عمر فقط سترہ سال تھی۔ آپ کی خالہ نے سفر کے تمام حاجات کو پورا کیا اور آپ کی خالہ ہی نے آپ کو ملیبار کی طرف جانے والے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ ایک کشتی میں روانہ کر دیا۔ اور آپ کے ملیبار آنے سے قبل آپ کے ماموں سید حسن جفری رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ قطب الزمان سید علوی مولی الدویلۃ رحمہ اللہ نے اپنے ماموں سید حسن جفری رحمہ اللہ کو تین سال کی عمر میں دیکھا تھا۔ یوں ہی تجارتی قافلہ کے ہمراہ آپ کالی کٹ کے بندرگاہ پر اترے اور سید شیخ جفری رحمہ اللہ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور اس دن آپ سید شیخ جفری رحمہ اللہ کے گھر شہر کالی کٹ میں ٹھہرے۔ سلام و دعا کے بعد آپ دونوں نے ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔
آپ کی اولاد
ترمیمآپ رحمہ اللہ کے صرف دو اولاد تھے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔
- سید فضل پوکویا تنگل (صاجزادے)
- سیدہ فاطمہ (بیٹی)
آپ کے تلامذہ
ترمیمسید علوی رحمہ اللہ کے بے شمار تلامذہ ہیں۔ ان میں سے چند کا نام حسب ذیل ہے:
- ابو بکر کویا مسلیار ( او کویا مسلیار )
- عمر قاضی بلنکوتی
- سید فضل پوکویا
آپ کے عربی اشعار
ترمیمآپ رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد رشید ابو بکر کویا مسلیار رحمہ اللہ کے لیے کچھ اشعار قلم بند کیے تھے جو حسب ذیل ہے:
أربعة من الطيور طيروا
طاؤسنا ديك غراب نسر
كبر و شهوة و حرص و العجب
و هذه أخلاق أصحاب الكذب
اور آخری کے اشعار کچھ اس طرح ہے:
أو كويا خلي اكتبن مقالتي
على ظهر محراب المجيد الجمعة
سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ کی وفات
ترمیمسید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ کی وفات 7 محرم الحرام 1260ھجری اتوار کی رات میں ہوا۔ اور اس وقت آپ کی عمر مبارک 79 سال ہو چکا تھا۔ اور آپ اپنے ماموں سید حسن جفری رحمہ اللہ کے قبر انور کے قریب سپرد خاک ہوئے۔ اور آج بھی آپ کے مزار پر لوگوں کا صبح و شام ہجوم لگا ہوا رہتا ہے۔ خود راقم الحروف نے بارہا زیارت سے مشرف ہوا ہے۔ اور ہر سال ایک محرم الحرام سے لے کر سات محرم الحرام تک آپ کا عرس مبارک تزک و احتشام سے منا یا جاتا ہے۔ [1]