1830اور1838کے درمیانی عرصے میں جب سردار آزاد خان نوشیروانی اپنے والد میر عباس سوم کی وفات کے بعد ریاست خاران کی تخت شاہی پر جلوہ افروزھوا،تو انھوں نے خاران کو ایک علاحدہ ریاست بھی قراردیاتھا،وہ خاران کو ریاست قلات اور افغانستان سے سیاسی طور پر آزاد کرنے کی کوشش کے درپے تھا انھوں نے ملکی دفاع کے پیش نظر اور بیرونی حملہ آوروں کی دست بردسے آزاد ھونے کے لیے مختلف مقامات پر قلعے تعمیر کروائے تاکہ ریاست مکمل طور پر محفوظ ھو،لیکن مرکزی سطح پر ریاست کی صدرمقام کی حیثیت سے ایک مضبوط قلعہ کی تعمیر ناگزیر تھا ،لیکن اس فوجی نقطہ نگاہ سے کوئی موزوں مقام نہیں ملتا تھا جہاں پانی دستیاب تھا وہاں قلعہ تعمیر کرنا مناسب نہیں تھا اور جہاں قلعہ کے لیے جگہ مناسب سمجھا جاتا تھا وہاں پانی ناپید تھا اس مسئلہ نے سردار کر بہت پریشان کر رکھا تھا۔ چونکہ سردار آزاد خاران نوشیروانی بذات خود ایک اللہ والا شخص تھا،وہ ان جیسے لوگوں کی بخوبی قدردانی کرتا تھا اور اپنا یہ مسئلہ ایک اللہ والے شخص فقیر جمعہ(جیہندزئی رخشانی)کو پیش کیااس درویش نے سردارکوتسلی دی اور سردار کو خاران شہر (موجوہ) سے شمال کی جانب دلکشا کے مقام پر لے جاکر کان اور کاریزاحداث کرنے کی نشان دہی کی اپنے عصاء سے کانوں کی جگہ کاریز اور قلعہ کی جگہ نشان زد کر دیا اور اس کی کامیابی کے لیے اور خیروبرکت کے لیے دعاکی،سردار صاحب نے فوراً کان اور کاریزاحداث کی،اللہ کے فضل سے اس درویش کی دعا کی برکت سے کان اور کاریز کامیاب ھوگئے اور نالہ کے ذریعے قلعہ کے مقام تک پانی لایا گیا، مقامی لوگوں سے روایت ہے کہ اس وقت سے تاحال کاریز کا پانی ایک ہی مقدار میں بہتا ہے نہ کم ہوتا ہے اور نہ زیادہ یقیناً ایک ولی کی دعا کا نتیجہ ہے کاریز کا پانی نالہ کے ذریعے قلعہ کی منتخب کردہ جگہ تک لانے پر سردار کا مسئلہ حل ھوگیا اور فوراً قلعہ کی تعمیر کاکام شروع ھوگیا ایرانی ماہرین تعمیرات کے علاوہ باقی تمام مزدورمقامی لوگ تھے جنھوں نے بصورت امداد باہمی کے چارفٹ موٹی دیواروں اور چالیس فٹ اونچے چاربرجوں پر مشتمل چارسوفٹ لمبے اور بارہ سوفٹ چوڑے اور تیس فٹ انچے قلعہ کی تعمیر کاکام نہایت ہی قلیل عرصے چھ مہینے میں مکمل لیاگیا۔قلعہ کی تعمیر پختہ انیٹیں سے بنانے کے لیے قلعہ سے جنوب کی جانب خشت بھٹہ قائم کیا گیا،قلعہ کی حفاظت کے لیے چاروں اطراف گنبدنما مورچوں کی ایک مربوط فصیل بنائی گئی ہے قلعہ کی جنوبی دیوار کے باہر مگر اس سے ملحق تین کمروں پر مشتمل ایک بارودخانہ تعمیر کیا گیا تھاجس میں اسلحہ اور بارود تیار کیاجاتا تھا قلعہ سے متصل بیرونی جانب ایرانی طرزتعمیر کے لنگرخانہ،مہمان خانہ فوج کا باجا خانہ اور چوتھا دارو خانہ تعمیر کیا گیا اور قلعہ کے مشرق میں بیرونی جانب قلعہ سے ملحق گنبدنما مسجد تعمیر کیا گیا جو آج تک آباد ہے اور باقاعدگی سے پانچ وقت کی آذان اور نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے قلعہ کے اندر فصیل کے ساتھ مشرقی جانب مرکزی دروازہ ہے،جس کے اوپر گنبدنما چھپ ہے بڑا دروازہ کہلاتا ہے بڑے دروازے سے اندر داخل ھوتے ہی بائیں جانب کمرے شروع ھوتے ہیں پہلا کمرہ گارڈ روم کہلاتا ہے اور اس کے ساتھ دوسرے کمرے اسلحہ خانہ کہلاتے ہیں بالائی منزل کے کمرے رہائش کے لیے مخصوص تھیں اور دیوان خانہ کے طور پراستعمال ھوتے تھے بالائی منزل سے آگے برج کی تیسری منزل بنائی گئی ہے جن کو ایک خفیہ راستہ سے ملادیا گیا ہے اس طرح ہربرج کی بالائی منزل کا راستہ بھی بھول بھلیاں ہی ہیں جنوب میں دومنزلہ مکانات ہیں جو رہائش کے طور پر استعمال ھوتے تھت مغربی جانب کمرے بھی رہائش کے لیے مخصوص تھیں اور ان کے پیچھے بارہ کمروں پر مشتمل تہ خانہ ہے۔شمال کی جانب نچلی منزل بارہ تہ خانوں پر مشتمل ہے جن میں جانوروں کے لیے بھوسا وغیرہ اسٹور کیاجاتا تھا،دوسری منزل چھ کمروں پر مشتمل ہے جو نہایت آراستہ تھے دیوان خانہ کہلاتے تھے نواب ان کمروں میں دیوان عام اور دیوان خاص منعقد کرتے تھے،ہنگامی بنیادوں کے پیش نظرثانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قلعہ عین وسط میں آبنوشی کے لیے ایک کنواں بھی کھودا گیا تھا قلعہ کے چاروں جانب کونوں پر برج بنائے گئے ہیں ان برجوں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں جن کے ذریعے دشمن کی نقل و حرکت پر باآسانی نظررکھی جا سکتی ہے اور اسے بخوبی نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ قلعہ کی تعمیر کے بعد سردار آزادخان نوشیروانی نے باقاعدہ قلعہ کو استعمال کیا اور اس میں رہائش پزیرھوا اس کے بعد ان کے بیٹے سردار نوروزخان نوشیروانی اور سردار محمد یعقوب خان نوشیروانی بھی قلعہ کودفاعی نوعیت کے لیے استعمال کیا ارر اس میں رہائش رکھے تھے۔نیز سردار محمد یعقوب خان نوشیروانی کی شہادت بھی اس قلعے میں ھوئی نواب حبیب اللہ خان نوشیروانی( آخری والی خاران) جب تخت شاہی پر براجمان ھوگیا تو حفاظت کے پیش نظربیرونی جانب بہت سے تعمیرات کی گئی نواب حبیب اللہ خان رہائش کے طور پر قلعہ کے قریب ،دل آرام، تعمیر کرکے اس میں رہائش پزیر ھوئے لیکن صف دفاعی نوعیت کے لیے قلعہ کو استعمال کرتاتھا۔ ڈیڑھ صدی گرزنے کے باوجود قلعہ خاران ایک دیوہیکل کی مانند آراستہ ہے جو خاران شہر کے وسط میں واقع ہے حکومتی سرپرستی نہ ھونے کی وجہ سے قلعہ ملحق اردگرد کے مکانات لوگوں نے گراکر رہائشی مکانات تعمیر کرچکے ہیں۔اگر حکومت پاکستان سمت ہمارے عوامی نمائندہ ایم پی اے،ایم این اے اور محکمہ آثار قدیمہ اس قلعہ کی مرمت تزئین وآرائش کی جانب توجہ نہ دی تو ممکن ہے کہ کچھ عرصے کے بعد خاران،بلوچستان سمت پاکستان ایک قومی ورثہ سے محروم ھوجائیگا۔