پاکستان کے ضلع مانسہرہ میں واقع شیر گڑھ کا قلعہ مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان دو دہائیوں تک ہونے والی جنگوں کا شاہد رہا ہے۔

تاہم وہ قلعہ جہاں ماضی میں مسلم اور سکھ افواج کی تلواریں ٹکرانے کی آوازیں گونجا کرتی تھیں کچھ دن قبل وہیں مسلمان بیرونِ ملک سے آنے والے سکھوں کی میزبانی میں مصروف دکھائی دیے۔


شیر گڑھ کا یہ قلعہ مانسہرہ کی تحصیل اوگی کے شمال مغرب میں تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسے 1819 میں مہاراجا رنجیت سنگھ کے سپہ سالار ہری سنگھ نلوا اور دیوان بھوانی داس نے کشمیر کی فتح کے بعد تعمیر کروایا تھا۔


جہانداد خان تنولی کا کہنا تھا کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ سکھوں کا بھی ورثہ ہے

سکھ تو زمانہ ہوا اس علاقے سے چلے گئے اور 200 برس بعد اب یہ قلعہ تنولی قبیلے کے پاس ہے۔

اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے جہانداد خان تنولی نے قلعے کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ ’اس قلعے کو بنانے کا مقصد اس کے ذریعے کشمیر کو افغانستان کی افواج سے محفوظ رکھنا تھا'۔

ان کے مطابق اس زمانے میں اس علاقے پر دو طاقتوں کا اثر و رسوخ تھا۔ مغرب کی طرف کابل کے درانی بادشاہوں کی حکمرانی تھی جبکہ مشرق میں رنجیت سنگھ درانیوں سے پنجاب چھینتا جا رہا تھا۔

جہانداد تنولی کے مطابق 1824 سے 1844 کے دوران تنولی سردار پائندہ خان تنولی نے شیر گڑھ پر 17 حملے کیے اور بالآخر 20 سال کی جدوجہد کے بعد اس قلعے پر قبضہ کر لیا۔

قلعے میں سکھ مہمانوں کا قیام اگرچہ چند گھنٹوں کے لیے ہی تھا لیکن اپنے ماضی کے حکمرانوں کی طرز زندگی کو قریب سے دیکھنا ان کے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا

قلعے کی 200 ویں سالگرہ اور سکھوں کی آمد 2019 اس قلعے کی تعمیر کا 200واں سال ہے اور اسی موقع پر جہانداد خان نے مختلف ممالک سے سکھوں کو یہاں مدعو کیا۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ سکھ تاریخ پر تحقیق کرتے ہیں وہ اکثر اس قلعے میں آتے رہتے ہیں لیکن سکھ مہمانوں کا یہ دورہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے علاقے اور دونوں اقوام کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کے درمیان روابط بہت ضروری ہیں۔ ’ہمیں بہت خوشی ہے کہ پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں سکھ کمیونٹی امریکا اور سنگاپور سے یہ قلعہ دیکھنے آئی ہے۔ یہ صرف ہمارا نہیں بلکہ دونوں قوموں کا ورثہ ہے۔'

حوالہ جات

ترمیم