قلعہ چترال
چترال قلعے کی تعمیر مقامی لوگوں نے اس وقت کے مقامی طرز تعمیر کے مطابق کی تھی۔ یہاں چترال کے حکمران یا مہتر رہا کرتے تھے۔ قلعہ کا قدیم حصہ خالص مقامی طرز تعمیر کا آئینہ دار ہے۔ یہ قلعہ 1895ء میں تعمیر کیا گیا تھا مگر اس پر حملے کے دوران بیشتر حصہ منہدم ہو گیا تھا۔ قلعے کا بنیادی حصہ 1926ء میں دوبارہ تعمیر کیا گیا، جس میں قلعے کا بیرونی حصہ، دربار ہال اور دفاتر کی عمارت تعمیر کی گئی جبکہ مزید تعمیر نو 1940ء کی دہائی میں ہوئی، جس میں مغل طرز کے مرکزی دروازے کی تعمیر بھی شامل ہے۔ یہ دروازہ اب بھی اپنی تمام تر خستہ حالی اور بدحالی کے باوجود خوش نما ہے۔قلعے کی بیرونی دیواریں، باغ کی دیواروں کی پرانی لکیر کے بارے میں بتاتی ہیں۔ پرانے قلعے کے ہر کونے پر ایک برج بنایا گیا جبکہ ایک مینار بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ قلعے کے برج تقریباً 15میٹر بلند جبکہ مینار21 میٹر اونچا بنایا گیاتھا۔ ٹاور کے بالائی خانے میں داخلے کے لیے لمبی بیرونی سیڑھی تھی جو محاصرے کے دوران صرف اندھیرے میں ہی استعمال ہو سکتی تھی۔ پانی کا مینار ، جو دریا کے اُس پار سے دیکھا جا سکتا ہے وہ بھی بعد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ برآمدے زمین سے اونچے بنائے گئے تھے، جن کی بالائی منزل پر رہائشی کمرے تھے۔ قلعے کا عقبی دروازہ ایک شکستہ بالکنی پر کھلتا ہے، جس کی ریلنگ اب موجود نہیں ہے۔اس کے شمال مشرقی برج میں داخل ہوں تو کھلی اور کم اونچائی والی سیڑھیاں بل کھاتی ہوئی اوپر لے جاتی ہیں۔ اوپر ایک چوکور کمرہ ہے، جس کی چھت جگہ جگہ سے اور فرش کہیں کہیں سے ٹوٹا ہوا ہے۔ اس کمرے کے چاروں طرف لکڑی کا برآمدہ ہے۔ قلعے کی کئی دیواریں، چھتیں، تہ خانے، کھڑکیاں، دروازے شکستہ حال اور اجاڑ ہیں۔ قلعے کے بعض حصے آج بھی قدرے بہتر حالت میں موجود ہیں، جس میں شاہی مہمان خانہ قابل ذکر ہے۔یہاں قدیم قندیلیں اور کاشی کاری سے مزئین دَرو دیوار کے علاوہ پشاور کے قدیم محلہ سیٹھیان کی حویلیوں جیسا آرائشی کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ چھت پر موجود بڑے کمرہ خاص کو چترال کے مہتروں (حکمرانوں) کی تصاویر سے سجایا گیا ہے۔ قلعے کے باہر ماضی کی زنگ آلود توپیں بھی موجود ہیں۔ تاہم ،یہ قلعہ اس وقت کے جدید مغل طرزِ تعمیر کا ایک حسین امتزاج معلوم ہوتا ہے۔ قلعہ کی دو جانب بڑے بڑے سر سبز باغات موجود ہیں۔