قوموں کے لیے روشنی یا قوموں کے درمیان میں نور (عبرانی:אור לגויים اور لگوییم) یا قوموں کے لیے نور ایک یہودی مذہبی اصطلاح جو کتاب یسعیاہ سے عہد عتیق میں تورات سے اخذ کی گئی ہے۔ اس عبارت کا عمومی مفہوم یہودی قوم کے تمام اقوام عالم کے رہبر و راہنما کی حیثیت سے منتخب ہونا کیا جاتا ہے۔ مسیحیوں اور یہودی مسیحیوں کے نزدیک یسعیاہ کی قوموں کے لیے نور کی اصطلاح دراصل یسوع مسیح کی طرف اشارہ ہے۔

کنیست اسرائیل کا نشان جو اسرائیل کی قوموں کے لیے نور کی علامت ہے

عہد عتیق ترمیم

یہ اصطلاح عہد عتیق میں کتاب یسعیاہ سے لی گئی : ”وہ کہتا ہے، ہاں خداوند فرماتا ہے کہ یہ تو ہلکی سی بات ہے کہ تو یعقوب کے قبائل کو برپا کرنے اور محفوظ اسرائیلیوں کو واپس لانے کے لیے میرا خادم ہو بلکہ میں تجھ کو قوموں کے لیے نور بناؤں گا کہ تجھ سے میری نجات زمین کے کناروں تک پہنچے۔“[1]

میں خداوند نے تجھے صداقت سے بُلایا میں ہی تیرا ہاتھ پکڑونگا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لیے تجھے دوں گا۔[2]

اور قومیں تیری روشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطین تیرے طلوع کی تجلی میں چلیں گے۔[3]

اس پیش گوئی کا مطلب یہ ہے کہ خدا قوم بنی اسرائیل کو ان کی سرزمین پر واپس لائے گا اور یہ واقعہ باعث بنے گا اس بات کا کہ باقی قومیں اپنی آنکھیں کھولیں اور بنی اسرائیل کو اپنا راہبر و رہنما بنائیں۔

لغوی معنی ترمیم

ربی راداک کا یہ عقیدہ تھا کہ یہودی قوموں کے درمیان میں نور کی مانند ہیں تاکہ وہ غیر یہودیوں کی قوانین نوح کی جانب راہنمائی کرسکیں۔

کتاب مقدس کے بعض یہودی مفسرین خصوصا قرون وسطی کے مفسرین درج ذیل آیات کو آخری زمانے سے مربوط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صیہون ہی تمام دنیا کا روحانی مرکز ہوگا۔

آخری دنوں میں یوں ہو گا کہ خداوند کے گھر کا پہاڑ پہاڑوں کی چوٹی پر قائم کیا جائیگا اور ٹیلوں سے بُلند ہو گا اور سب قومیں وہاں پہنچیں گی۔ ۔ بلکہ بہت سی اُمتیں آئینگی اور کہینگی آو خداوند کے پہاڑ پر چڑھیں یعنی یعقوب کے خداکے گھر میں داخل ہوں اور وہ اپنی راہیں ہم کو بتائے گا اور ہم اُسکے راستوں پر چلیں گے کیونکہ شریعت صیون سے اور خداوند کا کلام یروشلیم سے صادر ہو گا۔۔ اورقوموں کے درمیان میں عدالت کریگا اور بہت سی اُمتوں کو ڈانٹے گااور وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوے بنا ڈالینگے اور قوم قوم پر تلوار نہ چلائے گی اور وہ پھرکبھی جنگ کرنا نہ سیکھیں گے۔[4]

عصر حاضر ترمیم

موجودہ دور میں یہویوں کی ارض مقدس کی طرف واپسی اور آبادکاری کو بعض یہودی فلسفی قوموں کے لیے نور کو معرض عمل میں آنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مذہبی تحریک صیہونیت کے ایک راہنما آبراهام ایزاک کوک اسی بات کا معتقد تھا کہ یہودیوں کی یہ واپسی قوموں کے لیے نور ہی کے عقیدے کی تعبیر ہے۔

مملکت اسرائیل بحیثیت قوموں کے لیے نور ترمیم

ڈیوڈ بن گوریان نے اپنی یادداشتوں میں اسرائیل کی اخلاقی اور اجتماعی برتری کے بارے میں لکھا ہے۔مثال کے طور پر وہ یسعیاہ کی پیش گوئی کے بارے میں اس طرح لکھتا ہے : “ تاریخ نے ہمیں قدرت، ثروت یا بہت وسیع و عریض اور عظیم سرزمین تو نہیں دی لیکن ہمیں غیر معمولی ذہانت، علم اور اخلاق سے نوازا ہے اور یہ ہماری ایک برتری اور اعزاز قوموں کے لیے نور کی حیثیت سے ہے۔ “ - ڈیوڈ بن گوریان

حوالہ جات ترمیم

  1. یسعیاہ 49: 6
  2. یسعیاہ 42: 6
  3. یسعیاہ 60: 3
  4. یسعیاہ 2: 2-4