قیس بن خرشہ
حضرت قیس ؓبن خرشہ صحابی رسول تھے۔
حضرت قیس ؓبن خرشہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمقیس نام، باپ کا نام خرشہ تھا، نسباقبیلۂ بنو قیس بن ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے۔
بیعتِ اسلام
ترمیمقیس کے زمانہ اسلام کی صحیح تعیین نہیں کی جا سکتی ،ان کے دل میں مدت سے حق کی تلاش تھی؛چنانچہ وہ آنحضرتﷺ کے مدینہ آنے کے بعد بلا کسی خارجی تحریک کے اپنے وطن سے مدینہ آئے اورآنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے،یا رسول اللہ میں اس شے پر جو خدا کی جانب سے آپ کے پاس آئی ہے اور حق گوئی پر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرتا ہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا،قیس ممکن ہے آیندہ تم کو ایسے والیوں سے سابقہ پڑے جن کے مقابلہ میں تم حق گوئی سے کام نہ لے سکو،عرض کیا ایسا نہیں ہو سکتا، خدا کی قسم جس چیز پر آپ سے بیعت کروں گا اسے ضرور پورا کروں گا،فرمایا اگر ایسا ہے تو تم کو کسی شر سے نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اس عہد پر اس سختی کے ساتھ قائم رہے کہ بنی امیہ کے زمانہ میں زیاد اور عبید اللہ بن زیاد جیسے ستم کشوں اورظالموں پر برملا نکتہ چینی کرتے تھے،عبیداللہ نے ایک مرتبہ بلا کر کہا، تم خدا اور رسول پر افترا پردازی کرتے ہو، کہا خدا کی قسم نہیں میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا، البتہ اگر تم کہو، تو میں اس شخص کا نام بتادوں ،جو ایسا کرتا ہے،عبیداللہ نے پوچھا بتاؤ، قیس نے کہا،جس نے کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺ کو پس پشت ڈال رکھا ہے،عبید اللہ نے کہا وہ کون جواب دیا تم اور تمھارا باپ ۔ [1] ان کی یہ حق گوئی صرف عبیداللہ ہی کی ذات تک محدود نہ تھی؛بلکہ تمام ظالم حکام کے مقابلہ میں اسی حق گوئی سے کام لیتے تھے، کان شدیدا علی الولا قوالا بالحق ،قیس والیوں کے معاملہ میں نہایت سخت اور بڑے حق گو تھے۔ [2]
وفات
ترمیمان کی اس سخت گیری اورحق گوئی پر عبید اللہ ان کا دشمن ہو گیا اور آخری مرتبہ بلا کر کہا تمھارا خیال ہے کہ تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا فرمایا بیشک میرا یہ خیال ہے ،عبیداللہ نے کہا اچھا آج ہی تمھارے اس جھوٹے خیال کی قلعی کھلی جاتی ہے،یہ کہہ کر سزا دینے والوں کو بلایا، ارباب سیر کا متفقہ بیان ہے کہ قبل اس کے کہ سزا دینے والے پہنچیں اوران کے جسم کو ہاتھ لگائیں ان کی روح قفسِ عنصری سے پرداز کر گئی اور وہ سزا کے شرسے بچ گئے۔ [3]