لات (قدیم عرب بت)

لات عرب کے قدیم خداؤں میں سے ایک خدا تھا۔

لات، دور جاہلیت میں اہل عرب کا ایک بت کا نام ہے جو مربع شکل کا تھا اور سفید پتھر کا بنا ہوا تھا اور اسے اہل عرب خدائی درجہ دیتے تھے۔ اس بت کی عبادت کرتے تھے۔ اس بت کی عبادت عرصہ دراز تک ہوتی رہی ہے۔ طائف میں یہ بت رکھا ہواتھا۔

  • أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى
لات کا بت ایک اونٹ پر

کیا تم نے لات اور عزٰی (دیویوں) پر غور کیا ہے۔ لات : قتادہ کہتے ہیں کہ لات قبیلہ ثقیف کا بت تھا۔ جس کا استھان طائف میں تھا۔ اس شعر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے وفرت ثقیف الی لاتھا بمنقلب الخائب الخاسر یعنی بنو ثقیف خائب اور خاسر ہو کر بھاگتے ہوئے اپنے لات کے پاس لوٹ آئے۔
بنو ثقیف اس کے بڑے معتقد تھے۔ جب ابرہہ کا لشکر کعبے کو گرانے کے قصد سے مکہ جاتے ہوئے طائف سے گذرا، تو انھوں ے اسے رہبر مہیا کیے اور دیگر سہولتیں بہم پہنچائیں تاکہ وہ ان کے معبود لات کے استھان منہدم نہ کر دے۔
لات کے ماخذ کے بارے میں علما کے متعدد اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک "تا" اس کا حرف اصلی ہے۔ اس کے اصل حروف "ل۔ ی۔ ت "یا "ل۔ و۔ ت" ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا صل لویٰ یلوی ہے جس کا معنی جھکنا اور مڑنا ہے، کیونکہ اس کے پرستار اس کے ارد گرد چکر لگایا کرتے اور جھک جھک کر اس کو سجدے کیا کرتے، آداب بجالایا کرتے، اس لیے اس کو لات کہا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ لت یلت سے ماخوذ ہے جس کا معنی ستو میں گڑ وغیرہ ڈال کر لتھیڑنا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص حجاج کے لیے ستو اسی طرح تیار کیا کرتا تھا۔ اس کے مرجانے کے بعد جس چٹان پر بیٹھ کر وہ یہ کام کیا کرتا تھا، اس کی پرستش شروع ہو گئی کہتے ہیں یہ شخص طائف کا رہنے والا تھا۔
اگرچہ ان بتوں کے مخصوص مندر مختلف مقامات پر تھے جس طرح آپ پڑھ آئے ہیں، لیکن ابو عبید ہ کہتے ہیں کہ انہی ناموں کے بت کعبے میں بھی رکھے ہوئے تھے اور دوسرے بتوں کے ساتھ ان کی وہاں بھی پوجا پاٹ کی جاتی تھی۔ علامہ ابوحیات اندلسی نے 'بحر محیط' میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ احد کے میدان میں ابو سفیان نے بڑے فخروناز سے کہا تھا لنا العزی ولا عزی لکم کہ ہمارے لیے تو عزی دیوی ہے اور تمھارے پاس کوئی عزی نہیں نیز افرایتم میں خطاب کی ضمیر کا مرجع قریش مکہ ہیں"۔[1]

حوالہ جات

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر ضیاء القرآن محمد کرم شاہ سورۃ النجم19