وزیر آباد سے سیالکوٹ کی جانب سفر کریں تو سوہدرہ سے پہلے سڑک پر نالہ عبور کرنے کے لیے ایک چھوٹا پل موجود ہے جو لاڈو دی پلی کے نام سے مشہور ہے پروفیسر ڈاکٹر احمد حسین قریشی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ کی جانب سے ایک نو بیاہی دلہن کی ڈولی وزیر آباد آرہی تھی جب دلہن کو ڈولی سے اتر کر نالہ عبور کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے کہا کہ میرے والد کو کہیں اس نالہ پر پلی بنوا دیں میں ڈولی سے اتر کر نالہ عبور نہیں کروں گی رئیس والد نے اپنی لاڈو رانی کی خواہش پوری کرتے ہوئے اس برساتی نالہ پر پل بنوایا جو لاڈو کی پلی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ دوسری روایت کے مطابق شاہ جہانی قافلہ نے برساتی نالہ کے قریب ڈیرے لگائے اس قافلہ میں ایک دائی لاڈو تھی جس کے ہاتھوں شاہ جہاں کی پیدائش ہوئی اس قافلہ کی سہولت کے لیے شاہ جہاں نے یہاں پل تعمیر کرنے کا حکم دیا جو اس دائی کے نام کی وجہ سے لاڈو کی پلی کے نام سے مشہور ہو گیا

تیسری روایت کے مطابق شیر شاہ سوری کی بیگم کا نام لاڈو تھا جب شیر شاہ نے خوشاب تک ہمایوں کا پیچھا کیا تو راستہ میں اسے خبر ملی کہ کچھ خواتین برساتی نالہ میں طغیانی کی وجہ سے سوہدرہ کے قریب پھنسی ہوئی ہیں تو اس نے اس مقام پر پل بنانے کا حکم جاری کیا اس پل کو شیر شاہ سوری کی بیگم لاڈو کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔۔۔