پہلی جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد تاج برطانیہ نے اپنی ہندوستانی رعایا کے لیے جنگ میں ان کے شاندار خدمات کے اعتراف کے طور پر اصلاحات اور مراعات کا ایک نیا پیکج دیا۔ اس وقت کے وزیر ہند مانٹیگو اور برطانوی ہند کے گورنر جنرل چیمسفورڈ نے مل کر مرتب کیا تھا۔ برٹش پارلیمنٹ نے ان اصلاحات کے بل کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کے نام سے پاس کیا۔ لیکن یہ عام طور پر مانٹیگو۔ چمسفورڈ اصلاحات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

پس منظر

ترمیم

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کے پس منظر میں مندرجہ ذیل اصلاحات و واقعات قابل ذکر ہیں۔

پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانیوں کا کردار

ترمیم

1919ء میں پہلی جنگ عظیم کو برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے ہندوستان اور ہندوستانیوں کی طاقت پر جیت لیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس عالمگیر جنگ میں تقریبا دس لاکھ ہندوستانی فوجی فرنگی سرکار کی طرف سے شریک ہوئے۔ جن میں 36 ہزار ہلاک اور 70 ہزار زخمی ہوئے۔ مالی امداد کی مد میں فوجی اخراجات کے لیے ہندوستانی خزانے سے ایک ارب 54 کروڑ روپیہ ادا کیے گئے۔ ان کے علاوہ وفادار ہندوستانیوں نے عطیے کے طور پر مزید ایک ارب روپیہ انگریز سرکار کی خدمت میں پیش کیے۔

معاہدہ لکھنؤ

ترمیم

جنگ کے دوران ہندوستانیوں میں جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں تھیں۔ ان میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان 1916ء میں طے پانے والا لکھنؤ کا سمجھوتہ کافی اہم تھا۔ اس سمجھوتے کے تحت ہندوستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے مطالبات ماننے اور انگریزوں سے مزید اصلاحات اور مراعات حاصل کرنے سے اتفاق کیا تھا۔

ہوم رول کی تحریک

ترمیم

ہندوؤں کے انتہا پسند رہنماؤں بال گنگا دھر تلک اور اینی بیسنٹ نے ہوم رول کے حصول کے لیے اپنی تحریک شروع کر رکھی تھی۔ جس سے ملک میں سیاسی بے چینی بڑھ گئی تھی۔ ان حالات و واقعات کی وجہ سے انگریز سرکار نے جنگ عظیم کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کے تحت برطانوی ہند کے لیے جن اصلاحات اور مراعات کا اعلان کیا۔ ان کا بنیادی مقصد ہندوستانی رعایا کو یہ باور کرانا تھا کہ تاج برطانیہ کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہندوستانیوں کو امورِ حکومت میں شامل کیا جائے تاکہ مستقبل میں ان کو ملک کے مکمل اختیارات سنبھالنے اور چلانے کے لیے اہل بنایا جاسکے۔

نکات

ترمیم

مانٹیگو۔ چیمسفورڈ اصلاحات کے چیدہ چیدہ نکات مندرجہ ذیل تھیں۔

1۔ برطانوی ہند میں پہلی مرتبہ ایمپرئیل لیجسلٹیو اسمبلی (مرکزی اسمبلی) کی جگہ دو ایوانی مقننہ کو متعارف کرایا گیا۔ جس کے ایوان بالا کو کونسل آف دی سٹیٹ جبکہ ایوان زیریں کو لیجسلیٹیو اسمبلی کہتے تھے۔ ایوان زیریں کے کل 145 نشستیں تھیں جن میں 105 منتخب اراکین کے لیے جبکہ 40 انگریز سرکار کی طرف سے نامزد اراکین کے لیے مختص کر دی گئیں تھیں۔

2۔ برطانوی ہند میں پہلی مرتبہ صوبائی سطح پر دو عملی نظام متعارف کرایا گیا۔ اس نظام کے تحت صوبائی حکومت کے تمام محکمے دو گروپوں میں تقسیم کر دیے گئے تھے۔

I۔ مخصوص محکمے Reserved Departments

II۔ منتقلہ محکمے Transferred Departments

مخصوص محکمے، جن میں فنانس، عدلیہ اور پولیس کے قلمدان شامل تھے کو گورنر کی ایگزیکٹیو کونسل میں شامل کونسلروں کے حوالے کیے گئے۔ ان کونسلروں کی تقرریاں ہز میجسٹی کی حکومت کیا کرتی تھیں اور یہ کونسلرز گورنر کے سامنے جوابدہ تھے۔

منتقلہ محکمے، جن میں تعلیمم، پبلک ہیلتھ، ایکسائز اور زراعت کے قلمدان شامل تھے۔ صوبائی وزراء کو دے دیے گئے۔ اور یہ وزراء صوبائی لیجسلیٹو اسمبلی کے سامنے جوابدہ تھے۔ صوبائی لیجسلٹیو اسمبلی کے کونسلروں میں 70 فیصد منتخب کونسلرز ہوا کرتے تھے۔

3۔ گورنر جنرل کی ایگزیکٹیو کونسل جو چھ ارکان پر مشتمل ہوا کرتی تھی، میں توسیع کرتے ہوئے ارکان کی تعداد سے متعلق پابندی ختم کر دی گئی۔ لیکن یہ شرط بدستور رکھی گئی کہ کونسل ہذا میں ہندوستانی ارکان کی تعداد تین سے کم نہ ہو۔

4۔ صوبائی سطح پر گورنر کو سربراہ مقرر کیا گیا۔ یہ تقرری ہزمجسٹی کی حکومت پانچ سال کے لیے کرتی تھیں۔

5۔ جداگانہ طریقۂ انتخاب کے اصول کو نہ صرف برقرار رکھا گیا۔ بلکہ سکھ، انڈین کرسچین اور اینگلو۔ انڈین جیسی قومیتوں کو بھی یہ حق دیا گیا۔

6۔ رائے دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ جو 33 ہزار سے بڑھا کر 55 لاکھ سے زیادہ کر دی گئی

7۔ وزیر ہند کی تنخواہ جو پہلے ہندوستانی خزانے سے ادا کی جاتی تھی اب انگلستان کے خزانے سے مقرر ہوئی۔

8۔ انڈین کونسلز ایکٹ 1919 کی ایک شق کی رو سے دس سال بعد ان اصلاحات کا جائزہ لینے، ان کو برقرار رکھنے، واپس لینے یا ان میں ترمیم وغیرہ کرنے کے لیے ایک آئینی کمشن مقرر کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کیا گیا۔

تبصرہ اور ہندوستانیوں کا رد عمل

ترمیم

اگرچہ مانٹیگو۔ چیمسفورڈ اصلاحات کے نتیجے میں مرکزی مقننہ اور صوبائی لیجسلٹیو کونسلوں میں ہندوستانیوں اور غیر سرکاری اراکین کی تعداد میں اضافہ تو کر دیا گیا لیکن خصوصی اختیارات گورنر جنرل اور صوبائی گورنروں کے پاس تھے۔ وہ کسی بھی مسئلے میں ان کونسلروں اور کونسلوں کو By Passکر سکتے تھے۔ علاوہ ازیں مالیاتی امور میں مقننہ کے پاس کوئی قابل ذکر اختیار نہیں تھا۔ ہندوستانی Home Ruleکے طلبگار تھے لیکن انگریز سرکار نے ان صوبوں میں نیم ذمہ دار حکومت عطا کر دی۔ ہندوستانیوں کے سیاسی رہنماؤں نے ان اصلاحات کو ناکافی قرار دیا۔ خاص کر صوبوں میں دو عملی نظام پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ کانگریس اور لیگ دونوں نے مزید اصلاحات کا مطالبہ کیا۔