"ماہل" ضلع اعظم گڑھ، اترپردیش کا ایک زرخیز قصبہ ہے، جو سر "زمین علم و ادب" اور " گہوارہ علم " کے نام سے مشہور ہے۔ " قصبہ ماھل " کا ماضی بہت ہی تابناک رہا ہے، کیونکہ آزادی ہندوستان کے پہلے شہید " راجا ادارت جہاں " نے اسے اپنے پاکیزہ خون سے سینچا ہے۔ اس پر خیز قصبہ ماھل کے چند روشن ستارے، جن کے برکات سے آج بھی دنیائے علم و ادب فیضیاب ہو رہی ہے اس طرح ہیں: حسن علی ماھلی، خیال ماھلی، بیباک ماھلی، پروفیسر سید احتشام حسین ماھلی، شاہد ماھلی اور مولانا سید یونس حیدر رضوی ماھلی۔ راجا ادارت جہاں کی قبر قصبہ ماہل کے محلہ " روضہ ٹولہ " میں ہے، جو آج بھی خاص و عام کے لیے زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ اسی روضہ میں اور بھی شہدائے 1857ء کی قبریں ہیں۔ ویسے تو پورے ماہل ہی میں جگہ جگہ شہدا کی قبریں ہیں، جہاں آج بھی روز جمعرات اور دیگر مناسبات پر میلے لگتے ہیں۔ پھٹہیا مسجد شہید، جھلیا والے شہید، پنج شریف شہید اور مرکٹا شہید بہت مشہور ہیں۔ ماہل کی تاریخ بہت قدیم ہے لیکن 1857 کے بعد تذکرے اور " راجا ادارت جہاں " کے تذکرے کے لیے " تاریخ شیراز ہند جونپور " میں با قاعدہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

"حسن علی ماہلی" کا تذکرہ مولانا آزاد یونیورسٹی کے بی اے سال اول کے اردو ادب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
البتہ ماہل کا تذکرہ 3 ہجری قمری سے ملتا ہے۔ وہ اس طرح کہ "راجا کنور سین" نے تصدیق رسالت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے " بابا رتن سین " کی سربراہی میں جن سات افراد کو مکہ مکرمہ کے لیے روانہ کیا تھا ان میں ایک نام " ماہلی " بھی تھا جس کی ابھی تحقیق جاری ہے۔ مزید مطالعہ کے لیے مذکورہ منابع کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
"بیان الحق و صدق المطلق" {مطبوعہ تہران 1322ھ فخر الاسلام از حافظ مرّی و ابن تیمیہ نقل کردہ}، "تذکرة الموضوعات" {مولف محمد طاہر بن علی ہندی، متوفی 986ھ ناشر امین ،قج، بیروت، لبنان}، "دائرة المعارف قاموس عام لکل فن و مطلب" {جلد 8، مطبوعہ لبنان، در ذیل کلمہ ر،ت،ن، معلم بطرس بستانی تذکرہ "رتن سین" را کردہ است۔}، "الاصابہ فی معرفة الصحابہ" {علامہ ابن حجر مکی}، "میزان الاعتدال و لسان العرب" {علامہ ذہبی}، "تفسیر نمونہ جلد 23" {آیت اللہ مکارم شیرازی، مطبوعہ قم، صفحہ 18،در ذیل آیہ اول سورہٴ قمر نقل می کند۔۔۔}، "بحارالانوار" { علامہ مجلسی، جلد 17، صفحہ 35}، "بحارالانوار" {جلد 51، باب 19، صفحہ 253 "رتن سین" را ذکر کردہ است}۔
صاحب "تاریخ شیراز ہند" نے " میر آخوند میر" کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کی سپہ سالاری میں " قلی قظب شاہ " کی فوج نے فتح پائی تھی جس سے خوش ہو کر " قلی قطب شاہ " نے " جونپور " کا پورا علاقہ آپ کو بطور ہدیہ عطا کر دیا۔ " میر آخوند میر " نے اپنی رہائش کے لیے "ماہل" کا انتخاب کیا۔ ان کے بعد "راجا ادارت جہاں " نے ماہل کو اپنی چھاونی بنایا اور ماہل کے اطراف میں خندق کھدوائی تاکہ ماہل دوسروں کے شر سے امان میں رہے اور آج بھی یہ خندق موجود ہے۔
ایک ضروری تذکرہ: حسن علی ماہلی کا نام " لغت نامہ دھخدا " فارسی میں " محمد حسنعلی دہلوی ماھلی " کے زمرے میں ہے۔ جو " شاہ فتح اللہ " کے پوتے تھے۔ آپ کا انتقال 777 هَ . ق . یا 731 هَ . ق میں ہوا۔ " کتاب الذریعہ،ج9،ص 242 پر مفصل تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان منابع کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے:نفحات الانس ص 549 و تذکره ٔ دولتشاه قسم چهارم و مجالس العشاق مجلس 34 و مجالس النفائس ص 357 و مجمعالفصحاء ج 1 ص 196 و رجال حبیب السیر ص 73 وریاض العارفین ص 187 و آتشکده ٔ آذر ص 346 و مرآت الخیال ص 48 و تذکره ٔ خوشگو و هفت اقلیم و فهرست دانشگاه ج 2 ص 543 و ذریعه ج 9 ص 242 و تاریخ مفصل مغول چ اقبال ص 564 و فهرست سپهسالار ج 2 ص 543 میں آیا ہے اور ظاهراً یہی ہیں جن کا تذکرہ هدیةالعارفین (ج 1 ص 285) به عنوان "حسن علامی "معرفی کیا گیا ہے و «فوائد الفوائد» کو ان سے منسوب کیا گیا ہے۔ مزید تحقیق جاری ہے آپ سے زیادتے توفیقات کے لیے ملتمس دعا ہوں۔