مبارک بن فضالہ
حضرت مبارک بن فضالہؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔
حضرت مبارک بن فضالہؒ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیممبارک نام اورابو فضالہ کنیت تھی،نسب نامہ یہ ہے،مبارک بن فضالہ ابن ابی امیہ،بعض علما کا خیال ہے کہ ان کے دادا ابو امیہ حضرت عمر بن الخطابؓ کے غلام تھے اورمکاتبت پر رہائی حاصل کی تھی [1] چونکہ حضرت عمرؓ قریش کے مشہور قبیلہ بنو عدی سے نسبی تعلق رکھتے تھے،اس لیے مبارک بھی ولاء قرشی اورعدی مشہور ہوئے۔
وطن
ترمیمبصرہ کے رہنے والے تھے۔
فضل وکمال
ترمیمعلمی اعتبار سے وہ ممتاز اوربلند پایہ اتباع تابعین میں شمار ہوتے تھے مشہور صحابی رسولﷺ حضرت انس بن مالکؓ کے دیدار سے اپنی نگاہِ شوق کو منور کیا تھا، لیکن ان سے مستفید ہونے کی سعادت نصیب نہ ہو سکی ،حضرت حسن بصریؒ کے دامنِ علم میں کامل 13 سال گزارے اورلعل گرانمایہ بن کرنمودار ہوئے،علامہ ذہبیؒ انھیں "الا ما م الکبیر"اور"من کبار علما البصرۃ" لکھتے ہیں [2] یحییٰ بن سعید القطان برابر ان کی توصیف میں رطب اللسان رہاکرتے تھے۔ [3]
شیوخ
ترمیمجن اساتذہ حدیث سے انھوں نے علم کی تحصیل کی ان میں ممتاز نام یہ ہیں، حسن بصری،بکر بن عبد اللہ المزنی،محمد بن المنکدر،ثابت البنانی ،ہشام بن عروہ،حمید الطویل،عبیداللہ بن ابی بکرؒ۔
تلامذہ
ترمیمان سے شرفِ تلمذ رکھنے والوں میں امام وکیع، مسلم بن ابراہیم،سلیمان ابن حرب، سعدویہ،شیبان بن فروخ،عفان بن مسلم، حبان بن ہلال،مصعب بن المقدام،ابوداؤد الطیالسی،عثمان بن الہشیم،عمروبن منصور القیسی،موسیٰ بن اسماعیل،کامل بن طلحہ،علی بن الجعد ؒ کے نام لائقِ ذکر ہیں۔ [4]
جرح و تعدیل
ترمیممبارک بن فضالہ کی ثقاہت وعدالت کے متعلق ائمہ فن کی رائیں مختلف ہیں، عام طور سے ان پر تدلیس کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے؛چنانچہ ابو زرعہ،ابن ناصر الدین اور بعض دوسرے علما کثیر التدلیس لکھتے ہیں،لیکن بعض شرطوں کے ساتھ ان کی روایات کو قبول کرلینا درست ہے،امام ابوداؤد کا بیان ہے: اذا قال حدثنا فھو ثبت جب وہ روایت کرتے وقت حدثنا کہیں تو وہ قابلِ اعتماد ہیں۔ ابو زرعہؒ ہی کا قول ہے: اذا قال حدثنا فھو ثقۃ مقبول جب وہ حدثنا کے لفظ سے روایت کریں،وہ ثقہ اورقابل قبول ہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ انھوں نے حسن بصری سے جو روایتیں کی ہیں وہ لائق حجت ہیں،ابو حاتم انھیں عدالت کے اعتبار سے ربیع بن صبیح پر فوقیت دیتے ہیں ۔ ان کے تلمیذِ رشید عفان بن مسلم ان کی توثیق اوران سے روایت کرتے ہیں۔ [5] علاوہ ازیں امام ترمذی،ابوداؤد اورعقیلی نے بھی ان کی روایتوں کی تخریج کی ہے۔ [6]
عبادت
ترمیمعلم و فضل کے ساتھ ان کے عمل کی دنیا آباد تھی؛چنانچہ علما کا بیان ہے کہ وہ بہت عبادت گزار اوردنیا کی آزمائشوں سے کنارہ کش تھے۔ [7]
وفات
ترمیمباختلافِ روایت 164ھ یا 165ھ میں باایامِ خلافتِ مہدی انتقال فرمایا۔ [8]