مجلسِ احرار (مجلسِ احرار اسلام) پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس کی بنیاد سن 1929ء میں ڈالی گئی۔ 29 دسمبر 1929ء کو دریائے راوی لاہور کے کنارے کانگریس کے اجلاس کے اختتام پر نہرو رپورٹ دریا میں بہا دی گئی، کامل آزادی کا ریزولیوشن پاس ہوا۔ علی برادران کی طرف سے تحریک خلافت کے خاتمے کے اعلان کے بعد خلافت پنجاب کے رہنماؤں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، شیخ حسام الدین، خواجہ عبد الرحمن غازی اور مولانا مظہر علی اظہر رحمہم اللہ جیسے سر بکف مجاہدوں نے اس انقلابی جماعت کی بنیاد رکھی۔

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری مجلس احرار اسلام کے پہلے صدر اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی پہلے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مجلس احرار اسلام کے قیام میں پیر مولانا دوست محمد بارک زئی صوابی، مولانا ابو الکلام آزاد اور علامہ محمد انور شاہ کاشمیری کی زبردست خواہش اور مشورہ شامل تھا۔ تاسیسی اجلاس سے امیر شریعت نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہراول دستہ ثابت ہوں اور آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصے میں آئے۔ استبداد کی چکی کا دستہ گورے کے ہاتھ میں ہو یا کالے کے ہاتھ میں، چکی وہی رہتی ہے اور میں اس چکی کو توڑ دینا چاہتا ہوں۔ غلامی بہت بڑا گناہ ہے، اگر اس گناہ سے نکلنا ہے تو اس سے بہتر کوئی موقع نہیں کہ ہم انگریزوں کے خلاف پر امن لڑائی میں شامل ہو جائیں۔‘‘

رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے مجلس احرار کی بنیاد رکھی، اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں نے ہماری آواز کو سنا اور قبول کیا۔ اگر ہم صدق دل سے کام کرتے رہے تو میرا یقین ہے کہ عنقریب ہرگوشہ میں مجلس احرار اسلام کا نظام پھیل جائے گا۔‘‘

اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر جیسے مشاہیر نے منظومات اور نامور اِشتراکی دانشور باری علیگ وغیرہ نے نثر کے ذریعے احرارمیں شمولیت کی دعوت عام کی۔

جمعیت علما ہندکے رہنماؤں میں سے مفتی کفایت اللہ دہلوی اورمولانا احمد سعید نے تحریک کشمیر میں احرار کا بھرپور ساتھ دیا۔ تحریک کشمیر کے بعد احرار کی مقبولیت آسمانوں کو چھونے لگی۔ ہندوستان کے ہرعلاقے میں احرارکا طوطی بولنے لگا۔ احرار پِسے ہوئے طبقات اور غریبوں کی حالت بدلنے کا عزم لے کر اُٹھے تھے۔ جب مشرقی پنجاب کے علاقہ کپورتھلہ میں حکمرانو ں نے غریب عوام کا معاشی استحصال کیا تو سُرخ پوشانِ احراراُن کی مدد کو آئے اور گرفتاریوں اور صعوبتوں کے سہنے کے بعد وہ بالآخر کامیاب ہوئے اورمقامی حکام کو غریب عوام کے مطالبات کے آگے جھکنا پڑا۔

مستقبل میں بھی معاشی ناہمواریوں کے خلاف احرارکی آواز ہمیشہ بلند ہوتی رہی۔ سامراج دشمنی اورغریب دوستی احرار کا نشانِ امتیاز رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ترقی پسند حلقوں کے ساتھ احرار کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے۔ رد قادیانیت کے لیے احرار جو تحریک چلائی اس کے اثرات کے نتیجہ میں علامہ محمداقبال نے بھی حکومت سے قادیانیوں کو غیر مسلم قراردینے کا مطالبہ کیا اورا ُن کے قلم سے مسلسل قادیانیوں کے خلاف نظم ونثر میں اظہارخیال ہوتا رہا۔

مجلس احراراسلام کے قائدین بے غرضی اور بے لوثی میں اپنے مثال آپ تھے۔ جرأت وبے باکی اورحق گوئی میں وہ ضرب المثل تھے۔ اس پرمستزاد یہ کہ اللہ نے انھیں خطابت کا بے نظیر ملکہ عطا کیا تھا۔ جس کی بدولت انھوں نے کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں سے انگریزی جبروت اور دہشت کا خوف دُورکیا۔ اُن کی زندگی ریل وجیل سے عبارت رہی، مگر وہ کلمۂ حق کہنے سے کبھی بازنہ آئے۔ جس پر انھیں شہرت کی بلندیاں ملیں۔ 1937 ء کے آمدہ انتخابات میں احرارکو شکست دینے کی خاطر اگر 1935ء میں پنجاب کے انگریز گورنر اَیمرسن کے ذریعے مسجد شہید گنج کا ملبہ مجلس احرار پر نہ گرایا جاتا تو پنجاب میں پہلی مرتبہ جاگیرداروں کی بجائے ایک متوسط طبقے کی نمائندہ حکومت کے قیام کی توقع کی جا سکتی تھی، مگر اَنگریز، قادیانی اور وَڈیروں کے گٹھ جوڑ نے احرار کی متوقع کامیابی کے راستے مسدود کر کے یونینسٹ حکومت کی راہ ہموار کر دی۔ اُس کے باوجود مجلس احرار کے سخت جانوں نے اپنے وجود اَور اِستقامت کا لوہا منوایا اور وہ وقتی ناکامی کے باوجود آنے والے وقت میں پوری قوت کے ساتھ اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو مجلس احرار اسلام نے اپنے قیام کے جو مقاصد متعین کیے تھے، وہ اُن میں کامیاب رہی۔

پاکستان بنا تو مجلس احراراسلام نے 1949 میں سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا اور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہوتے ہوئے بھی اپنی سیاسی حیثیت کو ختم کرکے مسلم لیگ کے لیے میدان خالی کر دیا۔ بعداَزاں مجلس احرار نے دینی معاملات پر یکسوئی کے ساتھ توجہ مرکوز رَکھی، لیکن سیاسی میدان میں نہ ہونے کے باوجود قومی اموراورعوامی مسائل پر اُس کی توانا آواز سنائی دیتی رہی۔ اگست 1961 ء میں جماعت کے قائد امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی رحلت کے بعد اُن کے جانشین و فرزند حضرت مولانا سید ابوذر بخاری ؒ نے احرار کا شیرازہ جمع کیا اورحکومت الہٰیہ کے نفاذ، تحفظ ختم نبوت اورتحفظ ناموس صحابہؓ کے لیے احرار کو منظم اور متحرک کیا۔

بعداَزاں فرزندانِ امیرشریعت مولانا سیدعطاء المحسن بخاریؒ، مولانا سید عطاء المومن بخاری اورمولانا سیدعطاء المہیمن بخاری کی قیادت میں عہد بہ عہد مجلس احراراسلام کا قافلہ رواں رہا ہے۔ اب نواسۂ امیرشریعت مولانا سیدمحمد کفیل بخاری مدظلہ ’کی امارت میں مجلس احراراسلام، پاکستان کو اِسلام کا قلعہ بنانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔