مجلہ احکام العدلیہ
مجلہ احکام العدلیہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترکی کے علما کے ایک پینل نے ترتیب دیا اور یہ زیادہ تر مالی قوانین پر مشتمل ہے۔ یہ 1856ء-1876ء کے د وران لکھی گئی۔
اہمیت
ترمیمفقہ اسلامی کے دور جدیدکا آغاز” مجلةا لاحکام العدلیہ“ کی تصنیف سے ہوتاہے جس کی تصنیف نے واقعی فقہ اسلامی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی داغ بیل ڈال دی، اس وقت سے لے کر آج تک فقہ اسلامی پر اچھا خاصا کام ہوا اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق فقہ اسلامی کا وسیع ذخیر ہ سامنے آیا، [1]
پس منظر
ترمیممجلہ کی تصنیف کا پس منظر یہ تھاکہ خلافتِ عثمانیہ میں عدالتیں فقہ حنفی کے مطابق فیصلے کیا کرتی تھیں، اس نظام میں جج حضرات کو عموماً فقہ حنفی کے وسیع ذخیرے میں مطلوبہ مبحث کی تلاش اور مفتی بہ قول کی تعیین میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا، اس پر مستزاد وقت بھی کافی خرچ ہوتا۔اس کے علاوہ قدیم مصنّفین چونکہ قواعد و ضوابط کو مستقلاً ذکر کرنے کی بجاے جزئیات کے ضمن میں ذکر کرتے تھے؛اس لیے نئے مسائل کا فیصلہ کرتے وقت قواعد کااستخراج بھی انتہا ئی دقت طلب مرحلہ ہوتا، ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے خلافتِ عثمانیہ کے وزیر انصاف نے وقت کے جید فقہا کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور معاملات و نکاح کے ابواب کو قانونی ترتیب کے مطابق دفعہ وار مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی؛چنانچہ کمیٹی نے اپنا کام شروع کیا اور سات سال کی محنتِ شاقہ کے بعد 1285ھ میں ایک مجموعہ تیار کیا، اس مجموعے کو ”مجلة الاحکام العدلیہ“ کا نام دیا گیا، اس کے مقدمے میں فقہ کے مختصر قانونی تعارف کے ساتھ فقہ اسلامی کے ننانوے ایسے بنیادی قواعد ذکر کیے گے، جن پر تقریباً فقہ کی پوری عمارت کھڑی ہے اور ان قواعد کا فقہ کے تمام ابواب کے ساتھ انتہا ئی مضبوط ربط ہے۔اس پر مغز کے مقدمے کے بعد سولہ مرکزی عنوانات کے تحت1851 دفعات میں معاملات کے تمام اہم ابواب کا ذکر کیا گیا ہے، ان تمام مسائل میں مفتی بہ اقوال لینے کی کوشش کی گئی ہے؛البتہ بعض مسائل میں حالات و زمانہ کی ضروریات کے پیشِ نظر ضعیف و مرجوح اقوال بھی لیے گئے ہیں [2]