محاصره اشبیلیہ
اس میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
16 ماہ کا اشبيليہ کا محاصرہ (جولائی 1247 - نومبر 1248) كاسٹلہ کے فرڈیننڈ سوم کی فوجوں کی جانب سے اشبيليہ کی تسخیر نو کے دوران ایک کامیاب مہم جوئی تھی . تاہم 1236 میں زیادہ جُغرافیائی اہمیت کے حامل شہر قرطبہ پر قبضے کے پیش نظر اشبیلیہ کو کم اہمیت کا حامل سمجھا گیا، تاہم اس سے مسلم دنیا ایک صدمے میں آگئی، پھر بھی سے ول کا محاصرہ فرڈیننڈ سوم کی طرف سے کیے گئے حملوں میں سے سب سے زیادہ پیچیدہ فوجی آپریشن تھا۔ یہ ابتدائی تسخیر نو کے سلسلے کی آخری اہم مہم بھی ہے۔ اس آپریشن میں قلعہ لیون کی فوجی اہمیت کے حامل مقامی بحریہ فورسز کی موجودگی بھی دیکھی گئی۔ بنیادی طور پر، رامون ڈی بونیفاض كا سٹلہ کا پہلا ایڈمرل تھا، اگر چہ انھوں نے اس طرح کا سرکاری عہدہ کبھی نہیں رکھا تھا۔
1246 میں، جین شہر کی فتح کے بعد، اشبيليہ اور غرناطہ ہی جزیرہ نما عائی بیریہ میں واحد اہم شہر تھے، جنھوں نے مسیحی بالادستی کو قبول نہیں کیا تھا۔ ان دو میں سے غرناطہ 1492 تک نیم آزاد رہا۔
1247 کے موسم گرما کے دوران، كاسٹے لين نے شمالی اور مشرق میں شہر کو تنہا کر دیا اس نے اس محاصرے کی راہ ہموار کی جو اس وقت شروع ہوا جب رامن ڈی بونی فاض نے تیرہ جہازوں او کچھ چھوٹے بحری جہازوں کے ساتھ گواڈلكوير کو اور کچھ چھوٹے بحری جہازوں کے ساتھ چالیس چھوٹے بحری جہازوں پسپا کر دیا جو مزاحمت کی کوشش کر رہے تھے۔ 3 مئی کو، كاسٹے لين بحری بیڑے نے اشبیلیہ اور ٹرانا کو جوڑنے والے پل کو توڑ دیا۔
سینٹ البرٹس مے گنس نے لکھا ہے کہ محاصرے میں توپوں کا استعمال کیا گیا تھا، جس سے کہ یہ مغرب میں بارود کے لیے سب سے پہلا استعمال تھا۔
23 نومبر، 1248 قحط کی وجہ سے شہر پر قبضہ کر لیا گیا۔ جو شرطیں رکھیں گئیں ان میں وضاحت کی گئی کہ كا سٹلين فوجوں کو ایک ماہ کے بعد الکا زر میں میں داخل ہونے کی اجازت ہو گی۔
22 دسمبر، 1248 کو فرڈیننڈ نے شہر میں فاتح کے طور پر داخل ہوئے۔ مسلم تاریخوں میں یہ درج ہے کہ قریب تین لاکھ باشندوں نے شہر چھوڑ دیا۔ اوکلاغان اس تعداد کو مبالغہ سمجھتے ہیں