محروم: روئے زمیں پر آنکھوں نے کچھ ایسے چہرے بھی دیکھے جو فقر ومحتاجگی سے شکوہ کنا ہیں لیکن حیا کے پاک دامن نے انھیں شکایت کا موقع نہیں دیا۔ ہمنوا،ہم سفر،اصدقاءواقرباء گرچہ بڑے ہی مالدار ہوں لیکن کبھی ان سرمایادار سے اپنی غربت کی شکایت نہیں کی .قرآن مجید جس نے زندگی کے کسی گوشے کو نظر انداز نہیں کیا فرمایا:وفى أموالهم حق للسائل والمحروم[الذاريات:١٩] اور فرمایا : والذين فى أموالهم حق معلوم، للسائل والمحروم[المعارج:٢٥،٢٤] فرمایا مانگنے والوں کو تو ہر کس وناکس دیتا ہے لیکن دیکھو (محروم) کہیں محروم نا رہ جائے۔ امام قتادة والزهري نے لفظ (محروم) کی توضیح کی فرمایا:المحروم، ہو الذي يتعفف عن الناس حتى يحسبه الناس غنيا، فلايتصدقون عليه[فتح القدير: ص١١٢،ج ٥]. اس کی واضح تفسیر قرآن مجید کی یہ آیت ہے( للفقراء الذين أحصروا في سبيل الله لا يستطيعون ضربا في الأرض يحسبهم الجاهل أغنياء من التعفف تعرفهم بسيماهم لا يسألون الناس إلحافا وما تنفقوا من خير فإن الله به عليم(البقرة)

يحسبهم الجاهل أغنياء من التعفف،،، اس آیت کی تفسیر امام بغوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ..الجاهل  بحالهم أغنياء من التعفف ) أي من تعففهم عن السؤال وقناعتهم يظن من لا يعرف حالهم أنهم أغنياء والتعفف التفعل من العفة وهي الترك يقال : عف عن الشيء إذا كف عنه وتعفف إذا تكلف في الإمساك(تفسیر البغوی)..

. دلوں کوتھام لیجئے اور آئے آپ کو روئے زمین کی سب سے مقدس مقام کی غربت کی داستاں سنادوں جس کی دیواریں سے بس اللہ کے کلام کی آواز سنائی دے، جس کے راستے گواہی دیں کہ اے ہم سفر میں کوئی عام راستہ نہیں، تیرے قدم اب جنت کے راستے پر چل پڑے ہیں جی ہاں یقینا وہ صرف اور صرف دین کے مضبوط قلعے مدارس ہیں ... اس کمزور قلم سے ان عظیم طلبہ کی حالت زار کو بیاں کرنا اس ناتواں کندھوں پر بار گراں ہے۔بس آنکھے اشکبار ہوں جاتی ہیں، دل سے دعائیں نکلنی شروع ہوتی ہیں۔ مدارس میں بکثرت ایسے طلبہ آپ کو ملیں گے جن کے پاس اپنی روز مرہ کی ضرویات کو پورا کرنے کے لیے چیزیں نصیب نہیں ہوتی، سونے کے لیے چادر، پہننے کے لیے لباس

 نصیب نہیں ہوتے۔ لیکن وہ اپنی بے بسی پر نہیں روتے جن کی زباں شکر گزاری اور دل اللہ کی تعریف میں مشغول رہتے ہیں ..کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور نہ اپنی غربت کی شکایت کرتے ہیں حالانکہ اگر وہ چاہیں تو اپنی  ضرورتوں کو  کسی سے مانگ کرپورا کر سکتے کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
   "  صحرا کی  دوستی  سمندر  سے  تھی  مگر 
     غیرت میں اپنے پیاس کی شکواہ نہ کرسکا،
. لیکن جن کی نگاہیں ہمیشہ نبی کے اس فرمان پر ٹکی ہوتی ہیں۔.  جس کو بخاری وہ مسلم نے روایت کیا۔. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " إِنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ : ( مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ ) .

ورواه الإمام أحمد (11091) من طريق أخرى بلفظ : ( مَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللهُ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللهُ، وَمَا أَجِدُ لَكُمْ رِزْقًا أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ ) . (وإسناده حسن .) یقینا جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے رکتا ہے اللہ تعالی اسے اس کی توفیق دے دیتا ہے ..اور ایک مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جس میں آپ نے کثرت سوال کو اللہ کے نزدیک مکروہ بتایا۔....روى المغيرة بن شعبة رضي الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : (إن الله كره لكم ثلاثا : قيل وقال، وإضاعة المال، وكثرة السؤال) رواه البخاري (1407) ومسلم (593).. اور مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ما رواه مسلم في صحيحه (1043) عن عوف بن مالك الأشجعي قال: " كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم تسعة أو ثمانية أو سبعة، فقال : ( ألا تبايعون رسول الله؟ )، وكنا حديث عهد ببيعة، فقلنا : قد بايعناك يا رسول الله، ثم قال : ( ألا تبايعون رسول الله؟ )، فقلنا : قد بايعناك يا رسول الله، ثم قال: ( ألا تبايعون رسول الله؟ )، قال : فبسطنا أيدينا وقلنا : قد بايعناك يا رسول الله فعلام نبايعك؟ قال : ( على أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً، والصلوات الخمس، وتطيعوا ) وأسر كلمة خفية : ( ولا تسألوا الناس شيئاً )، فلقد رأيت بعض أولئك النفر يسقط سوط أحدهم فما يسأل أحداً يناوله إياه ". ..آپ نے صحابہ کو لوگ