محمد اسد جلبانی
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
محمد اسد جلبانی 30 نومبر 2000 میں پاکستان کے شہر ڈیرہ غازی خان کی تحصیل کوٹ چھٹہ کے ایک گاؤں بستی جلبانی میں پیدا ہوئے۔ آپ دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے پر دادا مولانا قادربخش جلبانی اور دادا الحاج محمد امین جلبانی نے اپنی زندگی دین پر وقف کر دی۔آج بھی لوگ ان کی تعریف کے قصیدے پڑھتے ہیں۔آپ کے والد کا نام فرید احمد جلبانی ہے۔بہن بھائیوں میں محمد اسد چھٹے نمبر پر ہیں۔بڑے بھائی کا نام قادربخش جلبانی ہے۔محمد اسد جلبانی کے والد صاحب سرکاری ملازم ہیں۔ محمد اسد جلبانی جب پیدا ہوئے تو ابتدائی نام محمد اسد رکھا گیا۔ جلبانی ان کی ذات یے جو بلوچ قبیلہ ہے۔ مادری زبان سرائیکی ہے۔ سرائیکی کے علاوہ انھیں بلوچی ،سندھی،پنجابی،اردو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے۔ محمد اسد جلبانی نے اپنی تعلیم کا آغاز قرآن پاک سے کیا۔ جامع مسجد انوار محمدیہ بستی جلبانی سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔ اور ساتھ میں منہاج پبلک اسکول کوٹ چھٹہ میں داخل کروادیا گیا۔ ابھی دوسری جماعت میں تھے کے ان کے تایا منیر احمد خان جلبانی بلوچ نے اپنے علاقے میں ایک مڈل اسکول ،روشن تارا ایلیمنٹری اسکول قائم کیا تو محمداسد کو وہیں داخل کرادیا گیا۔جہاں انھوں نے مڈل کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔اس کے بعد میٹرک کے لیے پرائیویٹ اسکول دارین پبلک ہائی اسکول کوٹ چھٹہ میں داخل کرایا گیا،مگر دو ماہ بعد ہی محمد اسد کے اصرار پہ وہاں سے ان کا داخلہ کوٹ چھٹہ کے ایک مشہور اسکول لاریب ہائی اسکول میں کرایا گیا۔جہاں انھیں سر امیر بخش برمانی،سر برکت علی برمانی ،سر قنبر حسین برمانی،سر کلیم اللہ برمانی اور سر شکیل احمد جلبانی جیسے قابل اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا۔آپ نے میٹرک کا امتحان 2015 میں پاس کیا۔ میٹرک کے امتحان کے بعد محمداسد نے انٹر کے لیے ڈیرہ غازی خان کا انتخاب کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج بوائز ،بلاک 17 ڈیرہ غازی خان میں ایف۔ایس۔سی میں داخلہ لیا اور ساتھ میں ڈیرہ غازی خان کی مشہور اکیڈمی الحمد ایوننگ اکیڈمی میں داخلہ لیا ،جہاں انھیں پروفیسر امان اللہ بھٹہ،پروفیسر تنویر حسین ،پروفیسر محمد فاروق ،پروفیسر طارق احسان ،پروفیسر صابر جروار،پروفیسر عمران بخاری اور پروفیسر آفتاب سرائی جیسے قابل اساتذہ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ 2018 میں انٹر کرنے بعد محمد اسد کا رجحان اردو کی طرف زیادہ تھا اور اس دوران انھوں شاعری کرنا شروع کر دی تھی اور ساتھ میں ان کے کالم بھی چھپنے لگے اور درجن سے زیادہ افسانے بھی لکھ چکے ہیں اس لیے انٹر کے بعد بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بی۔ایس۔اردو میں داخلہ لیا مگر دو ہفتے کلاس لینے کے بعد مالی حالات کی وجہ سے اپنے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان میں غازی یونیورسٹی میں بی۔ایس اردو میں داخلہ لیا ،جہاں سے انھوں نے 2022 میں اپنی ڈگری مکمل کی۔ اب ایمرسن یونیورسٹی ملتان سے ایمرسن یونیورسٹی ملتان سے ایم۔فل اردو کر رہے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین ،پروفیسر ڈاکٹر سہیل عباس خان بلوچ، ڈاکٹر راشدہ قاضی،ڈاکٹر مجاہد قاسم بلوچ،ڈاکٹر اقبال کامران، پروفیسر ڈاکٹر محمد ابرار عبد السلام ،پروفیسر شفقت عباس، پروفیسر ڈاکٹر امتیاز حسین بلوچ، پروفیسر ڈاکٹر خاور نوازش ،ڈاکٹر محمد اشرف ملک، محمد خان کھوسہ ،اظہر حسین کلیانی، جاوید گل گشکوری، میڈم رابعہ یاسمین، ڈاکٹر جمیل الرحمٰن، ڈاکٹر عابد خورشید ،ڈاکٹر نازیہ راحت،میڈم اقراء غفار،میڈم فروا عائشہ ،میڈم فروا نذر،میڈم ایمان قیصرانی، قاضی محمد انور اور سید علی خان جتوئی صاحب جیسی شفیق ہستیوں کے زیر سایہ تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
محمد اسد جلبانی کی شاعری کی ایک خاص وجہ ان کا اپنا ایک اسلوب ہے۔ جو قاری پر رقت طاری کر دیتا ہے۔ وہ خوبصورت الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں۔ ان کے اشعار اتنے آسان و سادہ ہیں کہ ہر عمر کا شخص اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور اس کے مفہوم تک پہنچ سکتا ہے۔ ان کی شاعری کا خاص موضوع ،ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ ہے جو ان کی صوفیا کرام کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔اس کے علاوہ عشق و محبت ، ہجر و وصال، عوامی رنگ ان کی شاعری کے خاص موضوعات ہیں۔جو انھیں آج کے دور کے شعرا کرام سے ممتاز کرتے ہیں۔
آج پھر کوٸی جذبات سے کھیل گیا اسد
بھری محفل میں آدھا رہ گیا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجر اگر آسانی سے برداشت ہوتا
محبتیں روز نیلام کی جاتیں
۔۔۔۔۔۔
وہ ایک شخص جس کے واسطے رعایت دی گئی
وہی ایک شخص تمھیں سوچتا ہے صبح و شام
۔۔۔
جو کرگیا ہے آپ سے دو ہاتھ چھوڑیے
اس شخص کی۔مثال کو بس آپ چھوڑئے
سننے سے تو سنائی نہیں دے گا اب کچھ
اس شخص کی سنائی کو بس آپ چھوڑئیے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم زمیں زادے محبت کے علم تھام کر
شر پسندوں سے بغاوت پہ اتر آتے ہیں
محمد اسد جلبانی