محمد صالح بدخشی شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کے خلیفہ خاص تھے۔

تعارف ترمیم

محمد صالح بدخشی مجدد الف ثانی کے قدیم احباب میں سے تھے۔ انکسار، عاجزی، مسکینی اور خاموشی کے حامل تھے۔

حق کی تلاش ترمیم

محمد صالح کو جب طلب حق کا جذبہ پیدا ہوا تو قریب کے مشائخ وقت کی خدمت میں حاضری دی اور ان کی خدمت و صحبت سے مستفید ہوئے لیکن کسی سے بھی کوئی کشش(جذب) ہاتھ نہ لگی۔

بیعت ترمیم

محمد صالح کو ایک بار آگرہ (ہندوستان) کی جامع مسجد میں مجدد الف ثانی کی زیارت نصیب ہوئی۔ حضرت کا چہرہ دیکھتے ہی فورا آپ کے دل میں ایک ایسا جذ بہ و کشش پیدا ہوئی کہ آپ نے حضرت کی قدم بوی کا شرف حاصل کیا اور پھر آپ کی رہائش گاہ پر پہنچ کر تعلیم ذکر کی التماس کی۔ اس درخواست کو مجدد الف ثانی نے قبول فرما لیا۔ آپ نے مجدد الف ثانی کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔

فتح و کشائش ترمیم

محمد صالح مدتوں مجدد الف ثانی کی خدمت و صحبت میں رہے لیکن کم استعدادی کی وجہ سے حضرت کے دوسرے خدام کی طرح آپ کو فتح و کشائش ہاتھ نہ لگی۔ آپ اس صورت حال پر حیران و گریاں رہتے تھے۔ یہاں تک کہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور مجدد الف ثانی اعتکاف بیٹھے۔ اس دوران دست دھلانے والی تھالی اور پانی والا لوٹا پیش کرنے کی خدمت آپ کے ذمے تھی۔ ایک رات جب مجدد الف ثانی دست مبارک دھو چکے تو آپ مجدد الف ثانی کے دست مبارک سے تھالی میں گرنے والا پانی ایک کونے میں لے گئے اور سارا پی لیا۔ اس کے پینے سے فورا آپ کے کام و حال میں فتح و کشائش پیدا ہوئی اور مجدد الف ثانی کے روحانی فیوضات سے مالا مال ہو گئے۔

مقام و مرتبہ ترمیم

مجدد الف ثانی اکثر و بیشتر محمد صالح کی تعریف فرماتے تھے۔ ایک بار ارشاد فرمایا: مولانا صالح نے سیر صفات اور مالیات صفاتیہ سے کامل حصہ پا لیا ہے۔ آپ کے نام مجدد الف ثانی کے دس مکتوبات گرامی جلد اول میں موجود ہیں۔

وصال ترمیم

مولانا محمد صالح بدخشی کا وصال 1038ھ بمطابق 1628ء میں ہوا۔

تصنيف ترمیم

محمد صالح نے مجدد الف ثانی کے دن رات کے وظائف (معمولات) کو ایک رسالہ کی شکل میں جمع کیا۔ اس کا مخطوطہ کتب خانہ مولانا حافظ محمد ہاشم جان مجددی ٹنڈواللہ داد سائیں ضلع حیدرآباد میں محفوظ ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بعنوان : حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے معمولات حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ نے فرمایا، جو ان کی تصنیف لطیف حضرت مجدد الف ثانی میں شامل ہے۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرھند شریف مولف محمد نذیر رانجھا صفحہ 520 اور 521