مفتی پیر خواجہ محمد قاسم مشوری سندھ کے مشہور سجادہ نشین اور روحانی پیشوا ہیں۔

محمد قاسم مشوری
معلومات شخصیت
پیدائش 1 اگست 1898ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مشوری شریف ،  ضلع لاڑکانہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 مارچ 1990ء (92 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مشوری شریف   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش ترمیم

خواجہ محمد قاسم مشوری کی ولادت درگاہ عالیہ مشوری شریف (پرانا نام گوٹھ صاحب خان مشوری ) لاڑکانہ سند ھ میں 12، ربیع الاول شریف 1316ھ بمطابق 1896ء بروز پیر بوقت سحر ہوئی ۔

حسب و نسب ترمیم

خواجہ محمد قاسم مشوری بن حاجی محمد عثمان بن نہال خان بن اللہ بخش بن یار محمد بن پیار و خان بن شاہ محمد مشوری۔آپ نسب کے لحاظ سے ’’رند بلوچ ‘‘قبیلہ کی شاخ ’’مشوری ‘‘سے تعلق رکھتے تھے۔

عہد طفلی ترمیم

حضور قبلہ عالم مادر زادو لی اللہ تھے، بچپن میں بھی بچوں کے ساتھ نہ کھیلے۔ آپ کے والد ماجد فرماتے تھے کہ انکا بچپن نہایت پاکیزہ تھا،دیگر بچوں سے بالکل مختلف تھا کبھی کسی چیز کی فرمائش نہیں کی ہمیشہ سنجیدہ ، خاموش طبع ، دکھ سکھ میں صابر و شاکر تھے ۔ بچپن سے پڑھنے اور لکھنے کا بہت شوق تھا۔ وقت کی بہت ہی قدر تھی فضول باتوں کھیل کود میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے ۔ لکھنے کی مشق کرتے جس کے سبب آپ کی تحریر دیدنی ہوتی خوش خطی ایسی دلکش ہوتی جیسے موتی دل کو بھاتے ہیں ۔

تحصیل علم ترمیم

آپ نہایت ہی زہین تھے تعلیم کا دور شروع ہو ا تو اپنی والدہ ماجدہ کے ہاں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا۔ جو نہایت عابدہ ، زاہدہ اور شب خیز اور قرآن مجید کی عاملہ خاتون تھیں ۔ اس کے بعد قریب ہی کل’’گوٹھ ملا ابڑا‘‘ میں صوفی باصفا مولانا محمد عالم ابڑو ؒ سے فارسی کی تعلیم ’’بہار دانش ‘‘تک حاصل کی۔ آپ کی والد ماجد کی مالی حالت نہایت کمزور تھی وہ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اس لیے ہاتھ بٹانے کے لیے اپنے صاحبزادے کو بھی لے جاتے تھے۔ اس طرح بچپن میں دو کام سر انجام دیتے تھے۔ بعد نماز فجر زمین پر کام کرتے سخت تھکاوٹ کے باوجود دوپہر کو گھر سے کتابیں اٹھا کر استاد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے ، دن بھر پڑھائی ہوتی ، مطالعہ کا شوق رات کو سونے نہ دیتا تو رات گئے تک مطالعہ جاری رہتا،پھرصبح کو وہی سارے کام ہوتے ۔ جب آپ نے فارسی مکمل کی تو آپ کے والد ماجد حاجی محمد عثمان مشوری ؒ اپنے صاحبزادے کو اپنے خاندانی مرشد ، عارف باللہ ، سراج العارفین خواجہ سید امام الدین شاہ راشدی کے حضور دعا کے واسطے لے آئے اور عرض کی کہ حضرت قبلہ !میں اپنے بچے کو عالم دین بنانا چاہتا ہوں آپ اجازت بھی عنایت فرمائیں اور دعا بھی۔ حضرت قبلہ نے آپ کی طرف نظر کرم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’بیٹا! علم دین پڑھ ، لیکن خشک ملا نہ ہونا ‘‘یعنی علم دین کے ساتھ ساتھ راہ سلوک بھی طے کرنا ۔ آپ کی عمر تقریباً 12سال تھی کہ 1327ھ؍1908ء میں آپ کو وقت سندھ کی مشہور و معروف دینی درسگاہ ’’مدرسہ دارالفیض ‘‘ گوٹھ سونہ جتوئی ( تحصیل ڈوکری ضلع لاڑکانہ ) میں داخل کر وایا۔ اس درسگاہ سے سندھ بلوچستان ، پنجاب ، افغانستان و ایران کے سینکڑوں علما نے علم کی تحصیل کی ۔ آپ نے مدرسہ دارالفیض دارالا فتاء شرعی میں علامہ مفتی غلام محمد جتوئی اور سراج الفقہاء استاد الاساتذہ عارف باللہ علامہ مولانا مفتی ابوالفیض غلام عمر جتوئی سے 1339ھ؍ 1920ء میں تحصیل علم کی۔

مدرسہ جامعہ عربیہ قاسم العلوم کا قیام ترمیم

آپ نے آستانہ عالیہ قاسمیہ درگاہ عالیہ حضرت مشوری شریف پر 1340ھ 1921ء کو اپنے استاد مکرم کے حکم و ارشاد سے ’’مدرسہ جامعہ عربیہ قاسم العلوم دارالافتاء الشرعی ‘‘قائم کیا۔ جس کا سنگ بنیاد اپنے استاد مکرم سراج الفقہاء علامہ ابوالفیض غلام عمر جتوئی سے رکھوایا۔

دیگر مدارس کے برعکس آپ کا طریقہ کاریکسر منفرد تھا۔ آپ کے ہاں طلبہ کے داخلے کا رجسٹر تھانہ ہی روزانہ حاضری کا معمول ، طلبہ کاششماہی یا سالانہ امتحان ہوتا تھا اور فارغ ہونے والے فضلاء کو سند بھی نہیں دی جاتی تھی اس کے باوجود نتیجہ سو فیصد ہوتا، وہاں سے فارغ ہونے والا ہر فاضل تدریس کے قابل ہوتا۔ سندھ کے اکثر علما بالواسطہ اور بلا واسطہ آپ کے شاگرد ہیں ۔ اسی طرح آپ اپنے خلفاء کو بھی سند ( سر ٹیفیکٹ ) نہیں دیتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ داخلہ لینے والے نئے شاگرد کاسبق بدھ والے روز شروع کرواتے تھے ۔ کیوں کہ بدھ کے روز ہر اچھا کام شروع کرنے سے جلدی تکمیل کو پہنچ جاتا ہے اسی لیے بعض مدارس میں نئی کلاس یانئی کتاب کا آغاز بدھ کے روز کیا جاتا ہے۔

اس درسگاہ سے آج تک علم و عرفان کی نہریں جاری ہیں جس سے بے شمار تشنگان علم ظاہری و باطنی اپنی پیاس بجھا رہے ہیں ۔ بے شمار علما فارغ التحصیل ہوئے اور اس جامعہ کی سندھ ، بلوچستان اور پنجاب میں کئی شاخیں سرگرم ہیں ۔

بیعت و خلافت ترمیم

امام العارفین ، غوث العالمین ، محی السنۃ ، تیرہویں صدی کے مجدد بر حق، آفتاب ولایت ۔ سندھ میں سلسلہ قادریہ کے علم بردار ، شیخ المشائخ خواجہ سید محمد راشد المعروف پیر سائیں روضے دہنی وفات 1234ھ مزار پر انوار درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پا گارہ پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس سندھ ) کے ملفوظات شریف فارسی مسمی ’’مجمع الفیوضات ‘‘ قلمی کے مطالعہ سے (جو شریعت ، طریقت ، معرفت اور حقیقت کا خزینہ ہے ) آپ کو حضرت قبلہ عالم سے محبت پیدا ہوئی اس جذبہ کے تحت آپ نے اس نسخہ کیمیا کی تلاش و تحقیق کے بعد صحیح نسخہ کو سندھی سلیس زبان میں منتقل کیا۔ اور اسی شوق و ذوق کی تکمیل کے لیے خاندانی مرشد کریم کا انتخاب کیا جن کی نظر کرم آپ پر بچپن سے تھی یعنی فیض گنجور، قطب الاقطاب، شمس العارفین ، عارف باللہ ، حضرت خواجہ سید محمد امام الدین شاہ راشدی قدس اللہ سرہ الاقدس ( درگاہ شریف پیر جو گوٹھ المعروف ٹھلاء شریف متصل با قرانی اسٹیشن ، لاڑکانہ ) کے دست اقدس پر ’’سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ ‘‘ میں بیعت ہوئے ۔ پھر سلوک کی منازل طے کی اور صراط الطالبین فارسی قلمی ( جو سلوک و معرفت کے موضوع پر سراج العارفین ، عارف باللہ ، سند الاصفیاء ، سید الاتقیاء حضرت خواجہ سید محمد یسین شاہ راشدی قدس سرہ الاقدس المعروف ’’پیر سائیں جھنڈے دھنی اول ‘‘بن پیر سائیں روضے دہنی کی بے مثال تصنیف ہے) مرشد مربی سے حرفا حرفا پڑھی ۔ مرشد مربی حضرت خواجہ سید محمد امام الدین شاہ راشدی ؒ نے 1350ھ؍ 1931ء میں آپ کو خلافت مع دیگر تبرکات سے سر فراز فرمایا اور اسی سال آپ نے رحلت فرمائی ۔

درس و تدریس ترمیم

قبلہ عالم تاج العارفین کی ذہانت فطانت لیاقت صلاحیت اور تواضع کو دیکھ کر سراج الفقہاء نے آپ کو ا پنا معمتد خاص اور نائب بنالیا۔ مدرسہ دارالفیض سونہ جتوئی میں درس کے دوران میں ابتدائی کتابیں مبتدی طلبہ کو باآسانی پڑھاتے تھے ۔ اس طرح پڑھنے والے زمانے میں تعلیم و تدریس کا ذاتی تجربہ خوب حاصل ہو گیا تھا۔ دستار فضیلت کے بعد تقریباً ایک سال مدرسہ دارالفیض میں استاد مکرم کی نگرانی میں درس و تدریس کے ساتھ دارالافتاء کا کام بھی انہی کے سپرد تھا۔ اس کے بعد استاد مکرم سراج الفقہاء کے حکم خاص سے اپنے آستانہ عالیہ پر مدرسہ قائم فرما لیا اور ستر سال کا عرصہ طویل درس و تدریس قال اللہ وقال رسول ﷺ ،تصنیف و تحقیق ، تلقین و ارشاد، خطابت و امامت میں بسر کیا۔وعظ نصیحت ، درس و تدریس ، فتویٰ نویسی ، دعا و تعویذ، تلقین و ارشاد ، و ردو وظائف اور شب بیداری وغیرہ مشاغل اپنے ہاں نہایت وسیع وسعت رکھتے ہیں

تلامذہ ترمیم

یوں تو آپ کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے لیکن یہاں چند نامور شاگردوں کے اسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں ۔

  • 1۔ صاحبزادہ اکبر علامہ میاں علی محمد صاحب مشوری ؒ
  • 2۔ صاحبزادہ اصغر حافظ ’’محمد ‘‘المعروف ’’نالے مٹھا‘‘ صاحب مشوری ؒ
  • 3۔ مولانا مفتی عبید اللہ مشوری ؒ
  • 4۔ مولانا مفتی نور محمد قاسمی باکرانی ؒ
  • 5۔ مولانا مفتی محمد قاسم جتوئی مہتمم مدرسہ فیض القرآن لاڑکانہ
  • 6۔ مولانا مفتی حافظ عبد القادر کلہوڑو سابق خطیب مرکزی جامع مسجد قاسمیہ لاڑکانہ
  • 7۔ مولانا مفتی غلام محمد قاسمی بگھیو صدر مدرس درگاہ مشوری شریف
  • 8۔ مولانا مفتی غلام محمد قاسمی لغاری صدر مدرس مدرسہ عربیہ خیر العلوم خیر پور ناتھن شاہ
  • 9۔ مولانا مفتی علی بخش قاسمی مہتمم مدرسہ انوار الاسلام قاسمیہ نورانی مسجد دادو
  • 10۔ خطیب اسلام شیر اہل سنت مولانا محمد صدیق قاسمی جتوئی لاڑکانہ
  • 11۔ خطیب اہل سنت مولانا قادر بخش قاسمی خطیب جامع مسجد غوثیہ رحمانی نگر ضلع دادو
  • 12۔ مولانا مفتی عبد الرحمن قاسمی پھنور لاڑکانہ
  • 13۔ مولانا مفتی محمد صدیق قاسمی چنہ لاڑکانہ
  • 14۔ مولانا مفتی محمد صالح نعیمی لاڑکانہ

تصنیف و تالیف ترمیم

مشاغل کثیرہ کے باوجود آپ نے درج ذیل عظیم دینی تحقیقی و ادبی تصانیف تحریر فرمائیں جو اسلام کا عظیم سرمایہ ہیں یہ آپ کی نگرانی میں درگاہ عالیہ مشوری شریف کے شعبہ نشر و اشاعت کی جانب سے اکثر شائع ہوئیں۔

  • 1۔ فتاویٰ قاسمیہ 2جلد ( عربی ، فارسی ، سندھی ، اردو ) فتاویٰ کا عظیم مجموعہ
  • 2۔ معلم الفرائض طبع اول 1352ھ؍ 1933ء
  • 3۔ مجموعہ رسائل قاسمیہ 2 جلدیں
  • 4۔ مواعظ قاسمیہ
  • 5۔ ھدیۃ الابرار فی تحقیق ان المصطفٰی نور الانوار طب عاول 1374ھ؍1954ء
  • 6۔ البشریٰ لمن احتفل بمیلاد مصطفیﷺ طبع اول 1384ھ
  • 7۔ ھدایۃ الناس فی جواز المیلاد و الاعراس
  • 8۔ اشباع الکلام فی تحقیق مدۃ الرضاع والعظام طبع اول 1401ھ
  • 9۔ الحجۃ البیضاء فی حرمۃ الصدقات الواجبۃ علی الشرفاء طبع او ل 1384ھ
  • 10۔ فتح الودود فی تحقیق المراۃ والمفقود
  • 11۔ ارشاد العباد الی تصحیح النطق بالضاد طبع اول
  • 12۔ تقصیص اللحیۃ و تسوید اللحیۃ طبع اول
  • 13۔ فصل الخطاب فی لزوم الستروالحجاب محررہ 1947ء طبع اول 1990ء
  • 14۔ البینات الواضحات فی استجاب الجھر بالذکر بعد المکتوبات طبع اول
  • 15۔ اتحاف الاشراف فی احکام تبدیل الارقاف طبع اول 1959ء
  • 16۔ نفحات الکرامات ترجمہ ملفوظات پیر سائیں روضے دہنی جدید ایڈیشن مطبوعہ درگاہ راشدیہ پیر جو گوٹھ
  • 17۔ مسائل زکوٰۃ میں جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب ( سابق صدر اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ) کی تحریر اور تحقیقات پر ایک نظر ( اردو)
  • 18۔ رحمتی رات شب برات
  • 19۔ ارشاد طریقت (شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے ایک روحانی شعر کی روحانی و نورانی شرح ) طبع دوم 1385ھ
  • 20۔ شمس الھدیٰ لعیون الاعمیٰ (ردشیعت ) طبع اول 1371ھ؍1952ء
  • 21۔ ضیاء الھدی فی جواب نور الضحیٰ(رد شیعت)
  • 22۔ اوضح البیان فی ان الشیعۃ اعداء القرآن
  • 23۔ کتاب الناسخ والمنسوخ
  • 24۔ الدلیل المنقول فی تحریم الطبول
  • 25۔ نھج الصواب فی تحقیق الغراب ( اردو) مطبوعہ ہفت روزہ الفقیہ امر تسر 1932ء
  • 26۔ تحفۃ الاخوان فی منع شرب الدخان (سندھی میں ترجمہ کیا )
  • 27۔ نھج السداد فی منع الخضاب بالسواد
  • 28۔ رسالہ الرضاء
  • 29۔ خطبات سائین بادشاہ
  • 30۔ خطبات قاسمیہ
  • 31۔ نفحات الانس فی حضیرۃ العدس ( آپ کی ملفوظات شریف ) مفتی غلام محمد قاسمی

وفات ترمیم

حضور قبلہ عالم ، تاج العارفین ، قاسم ولایت ، سرتاج الفقہاء خواجہ محمد قاسم مشوری وصال سے چند برس قبل مخلوق سے بے نیاز و بے تعلق ہو کر واصل باللہ اور باقی باللہ ہو چکے تھے یکم رمضان المبارک 1410ھ؍ 28 مارچ 1990ء بدھ کے روز 94 سال کی عمر مبارک میں رب العالمین کے اسم ذات ’’اللہ اللہ اللہ ‘‘ کی ضرب لگاتے ہوئے علم و عرفان کا یہ آفتاب درخشاں غروب ہو گیا۔ [1][2]

حوالہ جات ترمیم

  1. کتاب قاسم ولایت مطبوعہ مشوری شریف اشاعت 2000ء
  2. انوار علمائے اہل سنت سندھ صفحہ 794،زین العابدین شاہ زاویہ پبلشر لاہور۔