محمود شاہد
محمود شاہد اردو کے شاعر ہیں۔
پیدائش
ترمیممحمود شاہد کی پیدائش 1958ء کو کڈپہ میں ہوئی۔ شاہد ان کا تخلص ہے۔
شاعری کا آغاز
ترمیممحمود شاہد شہر کڑپہ کے ایک ایسے جدید شاعر ہیں جو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں علمی، ادبی و ثقافتی ہو یا مذہبی نقطہ نظر وہ اپنے مشاہداتی نظریات کو جدید پیرائے میں ظاہر کرتے ہیں ان کے افکار و خیالات جداگانہ ہیں۔ موصوف کو ادبی ماحول و راثت میں ملا ہے ان کے والد داؤد نشاط کڑپہ کے ایک معروف شاعر تھے اور ان کی بدولت گھر میں ادبی ماحول برقرار رہا۔ شہر کڑپہ یوں بھی ادبی ماحول کا عکاس ہے۔ سنہ 1975ء سے ہی اپنی تخلیقات سے ادبی محفلوں کو گرم کیا ہے۔ موصوف بنیادی طور پر ایک اچھے افسانہ نگار ہیں۔ ان کی تصنیفات میں ’’ڈھانچہ‘‘ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے علاوہ ازیں موصوف نے ’’صحرا دریا صحرا‘‘ کے نام سے تنقیدی مضامین کا مجموعہ بھی اہل ارباب سخن کی نذر کیا ہے۔ زیر ترتیب افسانوں کا مجموعہ ’’بے شکل سیاہ دھبہ‘‘ کے نام سے تیار ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک شعری مجموعہ ’’سنگ ریزے‘‘ بھی زیر ترتیب ہے۔ انھوں نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز 1980ء میں کیا اور شہر کڑپہ سے سنہ 2008ء ماہ جولائی میں پندرہ روزہ ’’وسیلہ‘‘ شائع کرنے میں کامیاب رہے۔
شاہد کی غزلوں میں جدید رجحانات
ترمیمموصوف نے اپنے تعلیمی دور سے ہی شاعری کا آغاز کیا وہ اپنے والد سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ ان کے فکر و فن اور خیالات کے تعلق سے اقبال واجد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’’محمود شاہد کے فکر و فن نے ہمیشہ زندگی کی جمالیاتی آفاقیت اور اظہار و بیان کی Direct اثر پذیری کو اختیار کرتے ہوئے فنی تخلیق کی نمائندگی کی ہے۔ ان کی تخلیقات اردو میں زندگی کا روشن اشارہ ہیں۔‘‘ محمو د شاہد نے وجودیت کے پیرائے کو بڑے ہی سلیقے سے استعمال کیا ہے اور اپنے جسم و جاں کو دھویں میں تر بتر محسوس کیا ہے کبھی اسی جسم و جاں کو مشکوک ٹھہرایا ہے اور اپنے وجود کی جستجو میں کئی اشعار کہے ہیں۔ چند شعرا ملاحظہ ہوں:
” | کہر آلود جان و جسم کا موسم
دھویں میں تر بتر جذبات سناٹا |
“ |
” | یہ نظر کا فریب ہے شاہدؔ
یہ سراپا یہ جسم و جاں مشکوک |
“ |
” | دوڑتا پھر رہا ہوں صدیوں سے
ہاتھ آتا نہیں رمیدہ وجود |
“ |
وہ اپنے افکار و خیالات کو روایتی زنجیروں میں جکڑنا نہیں چاہتے ان کے آزادی اظہار کا یہ نظریہ جدید رجحانات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لطیف طنز بھی ان کی شاعری میں پایا جاتا ہے اور منظر کشی بھی، چند شعر ملاحظہ ہوں:
” | میں سوچ میں اپنی تاعمر رہا قید
دیکھا ہے کسی نے زنداں میں بھی زنداں |
“ |
” | در بدر پھرتے ہیں سائے شاہد
ہر قدم دھوپ بچھاتی ہے شعاع |
“ |
” | لفظ کی پشت پہ معنی کی لاش
مجھ سے پہلے مرے ادراک کی موت |
“ |
” | نئے موسم کی نئی بارش میں
مرے ہمراہ نہاتی ہے شعاع |
“ |
” | وحشت زدہ نیلگوں آسماں
اپنے لہو میں تربتر ہے شفق |
“ |
جدید لب و لہجے کے شعرا میں محمود شاہد کا نام بڑے ہی فخر سے لیا جاتا ہے۔[1][2]