محکم و متشابہ
محکم و متشابہ قرآن کریم میں دو قسم کی آیات پائی جاتی ہے، ایک قسم کو محکم کہتے ہیں اور دوسری کو متشابہ۔
محکم
ترمیماس کی جمع محکمات ہے۔اس کے معنی پختہ کی ہوئی (یعنی واضح) آیات۔ درست۔ جن کے معانی اور الفاظ میں اجمال اور اشتباہ نہ ہو۔ لفظ اپنے معانی پر واضح دلالت کرتا ہو اور غیر مراد کا احتمال نہ ہو۔
متشابہ
ترمیماس کی جمع متشابھات ہے ایسے کلام کو کہتے ہیں جس سے کئی باہم ملتے جلتے مطلب نکلتے ہوں اور ان کے درمیان میں فرق کرنا مشکل ہوجائے۔ اور اس کی تفسیر میں مختلف پہلو نکلتے ہوں۔ صرف علما ان کے درمیان میں فرق کرسکتے ہوں۔ عوام کا فرض ہے کہ ایسی آیات کے مطالب میں علما پر تکیہ کریں۔ اپنی عقل پر بھروسا نہ کریں۔۔ [1]
قرآن پاک
ترمیمھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْـکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْـکِتٰبِ وَاُخَرُمُتَشٰبِہٰتٌ ط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْـہُ ابْتِغَـآئَ الْفِتْـنَۃِ وَابْتِغَـآئَ تَاْوِیْلِہٖ ج ص ومَایَعْلَمُ تَاْوِیْلَـہٗٓ اِلَّااللّٰہُ مؔ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖلا کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْـبَابِ۔ (وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی اس کی کچھ آیتیں محکم ہیں جو اصل کتاب کا درجہ رکھتی ہیں اور دوسری کچھ آیتیں متشابہ ہیں۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے ‘ وہ اس میں سے متشابہات کے درپے ہوتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ حالانکہ نہیں جانتا اس کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی۔ تو جو لوگ علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے اور یہ سب ہمارے رب ہی کے پاس سے ہے۔ اور نہیں نصیحت قبول کرتے مگر عقلمند) قرآن میں بہت سی آیات محکمات ہیں اور بہت سی آیات متشابہات ہیں اور بعض آیات میں تمام آیات کو محکم بتایا ہے جیسا کہ سورة ھود میں فرمایا ہے (کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیَاتُہٗ ) اور بعض جگہ پورے قرآن کو متشابہ فرمایا جیسا کہ سورة زمر میں فرمایا : (اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَثَانِیَ ) پورا قرآن محکم اس اعتبار سے ہے کہ وہ سارا حق ہے لفظی اور معنوی اعتبار سے بالکل صحیح ہے کسی بھی جگہ کسی طرح کا اس میں اشکال نہیں ہے اس کے الفاظ اور معنی سب ہی محکم مضبوط اور مربوط ہیں اور جہاں پورے قرآن کو متشابہ فرمایا وہاں یہ مراد ہے کہ قرآن مجید کی آیات آپس میں متشابہ ہیں اس کے معانی حسن اور خوبی میں، حق اور صادق ہونے میں ایک دوسرے سے تشابہ رکھتے ہیں۔ یہاں ( سورة آل عمران میں) محکمات سے وہ آیات مراد ہیں جن کا مطلب ظاہر اور واضح ہے۔ نیز یہ آیات ام الکتاب یعنی اصل الاصول ہیں جن کے معانی و مفاہیم میں کوئی اشتباہ نہیں ان میں او امر و نواہی ہیں اور احکام ہیں جو بالکل واضح ہیں ان کے جاننے اور سمجھنے میں کوئی اشتباہ و التباس نہیں اگر کسی آیت میں کوئی ابہام یا اجمال ہو تو اس کے مفہوم کو بھی انھیں محکمات یعنی اصل الاصول کی طرف راجع کر دیا جاتا ہے۔ دوسری قسم کی آیات یعنی متشابہات سے وہ آیات مراد ہیں جن میں صاحب کلام کی مراد ہمیں معلوم نہیں۔ ان آیات کو متشابہات کہا جاتا ہے۔
راسخین فی العلم کا طریقہ
ترمیمان کے بارے میں راسخین فی العلم کا یہ طریقہ ہے کہ ان کے مفہوم کو آیات محکمات کے مفاہیم کی طرف لوٹا دیتے ہیں جو معنی آیات محکمات کے خلاف پڑے اس کی قطعاً نفی کی جائے اور متکلم کی مراد وہ سمجھی جائے جو آیات محکمات کے خلاف نہ ہو۔ اور کوئی ایسی تاویل اور توجیہ صحیح نہ سمجھی جائے جو اصول مسلمہ اور آیات محکمہ کے خلاف ہو۔ آیات متشابہات کا صحیح مطلب وہی تسلیم کیا جائے جو اللہ کے نزدیک ہے یہ اسلم ترین راستہ ہے۔ بہت سے لوگ ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھ نہیں پاتے اور چونکہ ان کے دلوں میں کجی ہے اس لیے آیات محکمات کے واضح بیانات کو چھوڑ کر متشابہات کے معانی سمجھنے اور کریدنے کے نامبارک شغل میں لگ جاتے ہیں اور فتنہ گری کے لیے ان کے وہ مفاہیم تجویز کرتے ہیں جو ان کی خواہشوں اور افکار و آراء کے موافق ہوں۔ اگرچہ ان کی یہ تاویل آیات قرآنیہ محکمہ کے خلاف ہی ہو۔ [2]