اس مدرسہ کی تأسیس وبنیاد رجب1319ھ مطابق1901ء ≠میں تعلیم وتدریس کے علاوہ فلسفہ ولی اﷲی کی اشاعت کے لیے معرض وجود میں آئی۔ مدرسہ کے بانی مولانا عبیداﷲ سندھی مسلمانوں کی اصلاح اور اسلام کی تبلیغ وترویج سے اچھی طرح واقف تھے۔

اس میں ’’ السواد الأعظم‘‘ کے نام سے ایک مجلس افتا قائم تھی۔ جس میں مدرسہ مظہر العلوم کراچی کے اساتذہ بھی شامل تھے۔ ہوتا یوں تھا کہ دارالرشاد میں جو استفتاء ات آتے تھے ان کا جواب لکھ کر مستفتی کو بھیجنے سے پہلے مظہر العلوم بھیج دیا جاتا تھا۔ وہاں سے اگر اس کی تصدیق وتصویب ہو جاتی ، تو گویا ’’السواد الأعظم‘‘ کی تائید ہو جاتی تو مستفتی کو بھیج دیاجاتا ورنہ نہیں، اس مدرسہ کی ایک شاخ بعد میں 1912ء میں نواب شاہ میں بھی کھلی وہ بھی سندھی ہی نے قائم فرمائی تھی۔

سندھی نے اپنے ایک مکتوب میں مدرسہ دارالرشاد کی تأسیس پر کچھ اس طرح کی روشنی ڈالی: ’’ آپ ( حضرت شیخ الہند) نے ہمیں سندھ میں کام کرنے کا طریقہ(رسائل وجرائد) سمجھایا، ہم نے حسب ارشاد کام شروع کیا اور کسی سے اس کا ذکر تک نہ کیا کہ ہم یہ کام حضرت شیخ الہند کا بتایا ہوا کر رہے ہیں۔ بظاہر ہم یہ کام اپنے نام سے کر رہے تھے لیکن میرے مشفق بزرگ حضرت تاج محمد امروٹی صاحب کو میرا اس طرح کام کرنا پسند نہ آیا چناں چہ ہم مجبور ہو گئے کہ امروٹ کی بجائے گوٹھ پیر جھنڈا، حیدرآباد میں دارالرشاد کے نام سے ایک مدرسہ بنائیں ہمیں اس مدرسہ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا پورا اختیار تھا اور پیر صاحب گوٹھ پیر جھنڈا کا ہمارے ساتھ فیصلہ ہو چکا تھا کہ وہ ہمارے کام میں بالکل دخل نہ دیں گے۔‘‘[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. (مجلہ سالنامہ علم وآگہی)