مسجد شاہ چراغ
مسجد شاہ چراغ شہر لاہور میں مقبرہ حضرت شاہ چراغ کے مغرب میں واقع ہے۔
تعمیر کا سبب
ترمیمیہ خان بہادر زکریا خان کے حکم سے تعمیر ہوئی کیونکہ اس کی والدہ اس خاندان کی مرید تھیں اور اس نے وصیت کی تھی کہ میری قبر اس جگہ ہو اور میرے زیور سے مسجد تعمیر کر دی جائے۔
معماری
ترمیممسجد شاہ چراغ چونہ گچ ہے جس کی پانچ محرابیں ہیں اور پانچ گنبد ہیں۔
تاریخ
ترمیمسکھوں کے عہد میں اس مسجد میں بارود بھرا رہتا تھا۔ جب یہ انگریزوں کی عملداری میں آئی تو اسے رہائش گاہ کی حیثیت دے دی گئی۔
میجر میگریگر ڈپٹی کمشنر اس میں رہائش پزیر رہا پھر اکاؤنٹنٹ کا دفتر قرار پائی۔
اب مسجد کا احاطہ علاحدہ ہے اور مقبرے کا الگ ہے،
اوقاف کے دفاتر کے سامنے ہی چند سیڑھیاں اوپر کو جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر بائیں جانب حضرت شاہ چراغؒ کا مزار شریف ہے اور بائیں جانب مسجد کی عمارت ہے۔دائیں جانب مزار کے گنبد کی چار دیواری اور عمارت میں عالمگیری عہد کی تعمیر کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ مزار کی عمارت کے چاروں کونوں پر انتہائی چھوٹے مینار ہیں جن کے نیچے محرابی طرز تعمیر دیواروں میں نمایاں ہے اور یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ کبھی ان پر کاشی کاری کا کام ضرور موجود ہو گا۔ مگر اب وہاں پر سوائے سفیدی کے اور کچھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے اوپر مزار کا خوبصورت گنبد ہے جس پر سبز رنگ کا روغن کر کے قدامت کے تمام نشان ختم کر دیے گئے ہیں۔ اندرونی احاطے میں ایک سے زائد قبور ہیں اور ایک قبر کے سرہانے یہ تختی نصب ہے۔مرقد انوار ،سید عبد الرزاق، المعروف حضرت بابا شاہ چراغؒ لاہوری،گنبد کے اندرونی حصوں میں کاشی کے پرانے کام کو از سر نو کیا گیا ہے جو عہد رفتہ سے ہرگز میل نہیں کھاتے۔ مزار کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی باہر معلوماتی تختیاں نصب ہیں۔ مزار کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں دیگر افراد کی قبور بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان قبور کے ساتھ مغربی سیدھ میں ایک قدیم درخت آج بھی موجود ہے۔ مسجد کے صحن میں لوہے کے جنگلے نصب کرکے نمازیوں کی سہولت کے لیے پنکھے لگائے گئے ہیں۔مسجد کی پانچ پرانی محرابیں آج بھی پھول پتیوں کے کام سے منقش ملتی ہیں۔ لیکن کاشی کا تمام پرانا کام سفیدی کی تہوں میں گم ہو چکا ہے۔ محرابوں سے سجی عمارت طولانی سیدھ میں زیادہ اور چوڑائی میں انتہائی کم ہے۔ محرابوں کے ساتھ اور اندرونی درمیانی عمارت مقطع ہے۔ ان کی چھت کے نیچے سے اوپر نمایاں طور پر گنبد مترور تعمیر کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ چھت کے اوپر گنبد اردگرد کی عمارات کی چھتوں ہی سے دکھائی دے سکتے ہیں۔اگر مسجد کی تمام موجودہ عمارت سے سفیدی کو کھرچا جائے اور پرانی عمارات کے ماہرین کے ذریعے قدیم رنگ بحال کرنے کی کوشش کی جائے تو مسجد اپنے ابتدائی ایام کی مانند دکھائی دینے لگے۔ مسجد کی پانچ محرابوں میں سے وسطی محراب کلاں ہے اور دیگر خورد، وسطی محراب کے ماتھے پر مشرقی سیدھ میں کلمہ شریف اور دور جدید کی خطاطی میں اللہ اور محمد ﷺ دائیں اور بائیں سیدھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔لاہور کے عین وسط میں ہائی کورٹ سے ملحقہ جی پی او چوک و سپریم کورٹ سے متصل حضرت شاہ چراغ لاہوری ؒ کا مزار مبارک ہے اور ساتھ ہی مسجد بھی ہے۔ انتہائی اہم جگہ پر واقع ہونے کی وجہ سے مسجد میں نماز جمعہ اور نماز پنجگانہ کے اوقات میں کافی رش ہوتا ہے۔ مغلیہ خاندان کے دور میں بننے والی اِس عظیم مسجد کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔اِس مسجد اور مزار مبارک کو ثقافتی ورثہ کی حثیت حاصل ہے۔ راجا رنجیت سنگھ نے اس مسجد کو کافی نقصان پہنچایا