حضرت مسلم بن حارثؓ صحابی رسول تھے۔

حضرت مسلم بن حارثؓ
معلومات شخصیت

نام ونسب

ترمیم

مسلم نام، باپ کا نام حارث تھا، قبیلہ تمیم سے نسبی تعلق رکھتے تھے۔

اسلام و غزوات

ترمیم

ان کے اسلام کا زمانہ متعین طور پر نہیں بتایا جا سکتا ،قبولِ اسلام کے بعد خاصۃً لوجہ اللہ جہاد میں شریک ہوتے تھے اوراشاعتِ اسلام کے مقابلہ میں مال غنیمت کی مطلق پروانہ کرتے تھے، اس بے لوثی اوراخلاص کی وجہ سے کبھی کبھی ان مجاہدین کو جو جہاد کے ساتھ مالِ غنیمت کے بھی خواہاں ہوتے تھے ہدفِ ملامت بننا پڑتا تھا،ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے کسی دشمن کے مقابلہ میں سریہ بھیجا، مسلم بھی اس میں شریک تھے،قلعہ کے قریب پہنچے تو محصورین کا شوروغوغاسن کرپاس گئے اورکہا اگر بچنا چاہتے ہو تو لا الہ الا اللہ کہو،ان کی اس فہمایش پر قلعہ والے مسلمان ہو گئے، اس پر ان کے بعض ساتھیوں نے جو مالِ غنیمت کے خواہاں تھے،انھوں نے بڑی ملامت کی کہ تم نے ہم کو مالِ غنیمت سے محروم کر دیا اورواپس ہوکر آنحضرتﷺ سے واقعہ بیان کیا، آپ نے سن کر مسلم کی بڑی توصیف فرمائی اورفرمایا تم کو قلعہ کے ہر فردکے بدلہ میں اتنا اتنا اجر ملیگا اورخوشنودی کی سند کے طور پر آئندہ آنے والے خلفاء اورائمہ کے نام ایک سفارشی تحریر لکھ کر عطا فرمائی [1] اورایک دعا تلقین فرمائی کہ اس کو سات مرتبہ فجر و مغرب کے بعد پڑھا کرو اس سے تم کو فائدہ ہوگا۔ [2]

عہد خلفاء

ترمیم

حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں مسلم نے آنحضرتﷺ کا تحریری فرمان ان کی خدمت میں لیجا کر پیش کیا آپ نے اس کو پڑھ کر انھیں کچھ مرحمت فرمایا مسلم چاروں خلفاء کے زمانہ میں زندہ تھے اورہر خلیفہ کے سامنے وہ تحریر پیش کرتے رہے اوران سب سے انھیں کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ [3]

وفات

ترمیم

ان کے زمانہ وفات کی تعیین کے بارہ میں اربابِ سیر خاموش ہیں،اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عمر بن عبد العزیز سے پہلے وفات پاچکے تھے،حضرت عمر بن عبدؓ العزیز خلفائے راشدین کے قدم بہ قدم چلتے تھے؛چنانچہ ان کی سنت پوری کرنے کے لیے مسلم کے بیٹے حارث کو بلا کر کچھ دیا اورفرمایا اگر میں چاہتا تو خود تمھارے پاس آسکتا تھا،لیکن میں نے تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث سننے کے لیے تم کو زحمت دی ہے۔ [4]

فضل وکمال

ترمیم

مسلم فضل وکمال کی حیثیت سے کوئی امتیاز نہ رکھتے تھے،تاہم ان کا دامن حدیث نبوی سے بالکل خالی نہیں ہے،ان سے ان کے لڑکے حارث نے حدیثِ روایت کی ہے۔ [5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (ابن سعد،جلد7،ق2،صفحہ:137)
  2. (اسد الغابہ:4/361)
  3. (ابن سعد،جلد7،ق2،صفحہ:137)
  4. (ابن سعدحوالۂ مذکور)
  5. (تہذیب الکمال:375)