🔵 اکراہ کی تعریف:

حمل الغير على أن يفعل مالايرضاه ولا يختار مباشرته لوخلى ونفسه. کسی کو ایسے کام پر مجبور کرنا جس کو وہ ناپسند کرتا ہے اور اگر اس کو مجبور نہ کیا جائے تو وہ اس کام کو کرنا پسند نہ کرے۔بعض دیگر علما نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: حمل الغير على أمر يمتنع عنه بتخويف يقدر الحامل على ايقاعه ويصير الغير خائفا به (كشف الاسرار، ۶/۱۵۰۳ ) کسی آدمی کو دھمکی دے کر کسی ایسے کام کرنے پر مجبور کرنا، جسے وہ نہیں کرنا چاہتا اور دھمکی دینے والا اپنی دھمکی کو عملی شکل دینے پر قادر ہو اور دوسرا آدمی اس سے خوفزدہ ہو۔

🔵 اکراہ کی اقسام:

اکراہ کی دو قسمیں ہیں: (۱)جان یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی۔ اس کو اکراہِ ملجی اور اکراہِ تام کہا جاتا ہے۔ یہ اکراہ؛ رضا کو معدوم اور اختیار کو فاسد کردیتا ہے۔ (۲)قید طویل یا ایسی مارپیٹ کی دھمکی جس سے جان یا کوئی عضو ضائع نہ ہو اس کو اکراہِ غیر ملجی یا غیر تام کہا جاتا ہے۔ یہ اکراہ؛رضا کو معدوم اور اختیار کو فاسد نہیں کرتا۔

بالفاظ دیگراکراہ کی دونوں قسموں میں اختیار معدوم نہیں بلکہ موجود رہتا ہے۔ البتہ اکراہِ ملجی میں اختیار فاسد اور اکراہِ غیر ملجی میں تام اور مکمل رہتا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک انسان کے مکلف ہونے کی شرط صرف وجود اختیار ہے صحت اختیار نہیں، فاسد اختیار مکلف رہنے کے لیے کافی ہے۔

اکراہ کےذریعے انسان کو جس کام پر مجبور کیا جائے وہ کام مکرہ علیہ کہلاتا ہے۔

انسانی اعمال کی تین قسمیں ہیں(۱)تصرفات، (۲)اقرارات، (۳)افعال، اس اعتبار سے اکراہ اور مکرہ علیہ کی بھی تین قسمیں ہیں:

🔵 مکرہ علیہ کی پہلی قسم:

تصرفات، تصرفات کی دو قسمیں ہیں:

(۱)جو فسخ کو قبول نہیں کرتے اور نہ وہ رضامندی پر موقوف ہوتے ہیں،ان پر اکراہ اثر انداز نہیں ہوتا، مثلاً طلاق، عتاق، نکاح، رجعت، نذر، ظہار، ایلاء،، دم عمد کی معافی اوریمین وغیرہ۔ ان پر اکراہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اکراہ کی صورت میں بھی یہ صحیح اور نافذ ہوتے ہیں۔

(۲)وہ تصرفات جو فسخ کو قبول کرتے ہیں اور رضا پر موقوف رہتے ہیں۔ مثلاً بیع، رہن، اجارہ وغیرہ عقود وتصرفات

اكراه كی صورت میں یہ تصرفات شرط انعقاد (قصد) کی وجہ سے منعقد تو ہوجاتے ہیں،لیکن شرط صحت(رضا) کے فقدان کی وجہ سے فاسد رہتے ہیں۔ عندالاحناف انعقاد عقد کے لیے اختیار کافی ہے اور انفاذ عقد کے لیے رضا شرط ہے۔ چناں چہ بعد زوال الاکراہ اگر مکرہ نے ان تصرفات کی صراحتاً یا دلالتاً اجازت دے دی تو یہ تصرفات صحیح ہوجائیں گے۔

🔵 مکرہ علیہ کی دوسری قسم:

اقرارات ہیں۔ اکراہ کی صورت میں مکرہ کے تمام اقرارات اور اسباب عقوبات باطل ہوں گے۔ ان پر اکراہ اثر انداز ہوتا ہے۔

🔵 مکرہ علیہ کی تیسری قسم:

مکرہ علیہ کی تیسری قسم افعال ہیں۔ پھر افعال کی دو قسمیں ہیں۔ (۱)وہ جس میں مکرَہ مکرِہ کے لیے آلہ بن سکتا ہو، مثلاً قتل، ضرب اور اتلاف مال۔ ان افعال کی نسبت (اکراہ میں) مکرِہ(حامل)کی طرف جائے گی۔ چناں چہ قتل عمد پر اکراہ کی صورت میں قصاص حامل مکرِہ پر اور قتل خطا میں مکرِہ کے عاقلہ پر دیت واجب ہوگی۔ اور اکراہ کی صورت میں مال تلف کرنے کا ضمان حامل(مکرِہ) پر ہوگا۔

(۲)افعال کی دوسری قسم وہ ہے کہ جن میں فاعل حامل کے لیے آلہ نہیں بن سکتا۔ مثلاً وطی اور کھانا پینا وغیرہ۔ کیوں کہ وطی اور کھانے پینے میں انسان دوسرے کے لیے آلہ نہیں بن سکتا بلکہ اپنے منہ سے کھاتا پیتا ہے، اپنے ذکر سے وطی کرتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا افعال زبردستی جبر واکراہ سے دوسرے سے کروائے گئے تو ان کی نسبت فاعل کی طرف ہوگی نہ کہ حامل(زبردستی کرنے والے) کی طرف۔ یہی وطی کا معاملہ ہے کہ حد یا رجم کی سزا زنا کرنے والے کو ملے گی، نہ کہ جبر واکراہ کرنے والے کو۔ اور اس طرح اکراہ مکرَہ کے لیے سبب تخفیف شمار نہ ہوگا۔

وہ افعال کہ جن کا کرنا ضرورت کے وقت شریعت اسلامیہ نے مباح قرار دیا ہے، مثلاً شراب نوشی، خون اور مردار کا کھانا۔ اکراہ کی صورت میں شراب نوشی اور مردار کھانا نہ صرف حلال بلکہ واجب ہے، اور نہ کرنا باعث گناہ ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے وقت ان اشیا کو مباح قرار دیا ہے اور حفاظت جان کی خاطر مباح کا کھانا واجب ہوتا ہے، جیسا کہ عام حالات میں تحفظ جان کی خاطر روٹی کھانا واجب ہے۔ اس صورت میں اکراہ سببِ تخفیف ہوگا۔

وہ افعال کہ جن کی حرمت سقوط کا احتمال نہیں رکھتی، لیکن رخصت کا احتمال رکھتی ہے، مثلاً کلمۂ کفر کا کہنا، کہ حالتِ اکراہ میں بھی اس کی حرمت قائم رہتی ہے اور اس کا کہنا حرام ہوتا ہے، لیکن اکراہ کی صورت میں کلمۂ کفر کہنے پر گناہ اور عذاب نہ ہوگا، بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ یہ بھی سبب تخفیف ہے۔

اکراہ کی صورت میں مال غیر کوتلف کرنے کی اجازت ہے، البتہ اس کا ضمان مکرِہ پر ہوگا، مکرَہ پر نہیں۔ تخفیف ؛مالِ غیر کے کھانے اور تلف کرنے کی صورت میں ہے۔

خلاصہ کلام: افعال مکرَہ علیہ کی چار قسمیں ہیں:

(۱)اکراہ کی صورت میں مردار کھانا فرض ہے، اگر اکراہ ملجی ہو۔(اکراہ سببِ تخفیف ہے)۔

(۲)اکراہ کی صورت میں زنا اور قتل کسی صورت میں جائز نہیں۔(اکراہ ان دونوں میں سببِ تخفیف نہیں)۔

(۳)اکراہ کی صورت میں کلمۂ کفر زبان سے کہنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ دل ایمان پر مطمئن ہو۔ اس صورت میں صرف زبان سےکلمۂ کفر کہنے کی حد تک تخفیف ہے۔

(۴)اکراہ کی صورت میں رمضان کا روزہ کھولنا مباح ہے (یہ بھی سبب تخفیف ہے)۔

کراہ تام اکراہ ناقص "


◾قانون پاکستان میں اکراہ کیا ہے؟ اکراہ کا مطلب ہے "دباؤ پریشر" جس میں اپ کی رضامندی شامل نا ہو پر دباؤ اور پریشر میں لاکر اپ سے کوئی کام کرایا جائے ۔


🔵 اکراہ تام کیا ہے؟؟


تعزیرات پاکستان کے سیکشن 303 میں اکراہ تام کی وضاحت کی گئی ہے اور سزا کا تعین بھی کیا گیا ہے. اکراہ تام کا مطلب ہے کسی شخص کو خطرناک دباؤ میں لیکر کوئی کام کرایا جائے جس میں اس شخص کی اپنی رضامندی نہ ہو. خطرناک دباؤ سے مراد کسی شخص کو موت کی دھمکی دے اور یہ دھمکی محض دھمکی نا ہو اس شخص کے موت کا خدشہ بھی ہو اور یا اس کے کسی عزیز کو موت کا خطرہ لاحق ہو یا اس کی بیوی اور کسی قریبی رشتہ دار کے ساتھ زنا کی دھمکی ملی ہوں ایسے عمل کو اکراہ تام کہا جائے گا۔


اکراہ تام کی سزا:

قتل کر دینے کی صورت میں اُس شخص کو قتل عمد کی سزا دفعہ 302 کے تحت ملے گی جس نے اکراہ تام کروایا ہو اور اکراہ تام کی وجہ سے قتل کرنے والے شخص کو کم سے کم 10 اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید کی سزا ملے گی۔


🔵 اکراہ ناقص کیا ہے؟؟


جو دھمکی اکراہ تام نہ ہو وہ اکراہ ناقص ہوگی تعزیرات پاکستان سیکشن303 کے مطابق جو دھمکی اکراہ تام میں نہ ہو وہ اکراہ ناقص ہوگی اور اکراہ ناقص کی دھمکی اتنی سخت اور خطرناک نہیں ہوتی جس میں موت یا دیگر سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔

مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے شخص کو دھمکی دیتا ہے کہ تم فلاں شخص کو قتل کرو ورنہ میں تمہارے کاروبار کو بند کروا دوں گا اس صورت جب وہ دباؤ میں آکر قتل کر دے تو یہ اکراہ ناقص ہوگا اکراہ تام نہیں کیونکہ یہاں اسے کوئی خطرناک خدشہ لاحق نہیں تھا ۔


▪️اکراہ ناقص کی سزا:


جو شخص اکراہ ناقص کے تحت کسی کو قتل کرے تو اس شخص کو قتل عمد کی سزا دفعہ 302 کے تحت ملے گیاور جو شخص اکراہ ناقص کروائے گا اسے 10 سال تک کی سزا ملے گی ۔