مصحف فاطمہ
مصحف فاطمہ اہل تشیع کے عقیدے کے مطابق اس الہامی مجموعے کو کہا جاتا ہے جو فرشتوں کے ذریعے فاطمہ زہرا تک پہنچے ہیں۔[1] اور علی ابن ابی طالب نے انھیں تحریری صورت میں محفوظ کیا ہے۔[2]
تفصیل
ترمیمنبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے پہلے نبی اکرم کی بتائی ہوئی تمام باتیں اس میں تحریر ہیں اور وفات النبی کے بعد کے واقعات جو بہت دردناک، افسوسناک اور دکھی کرنے والے تھے۔ اور بی بی فاطمہ جو انسانیت کے لیے بلکہ بارہ اماموں کے لیے بھی حجت الہی ہیں اور قیامت تک اور قیامت کے بعد بھی محور حق و باطل ہیں۔ انسانیت پر آئے سخت ترین صورت حال کو بھانپتے ہوئے بہت غمگین تھیں اور دن رات روتی تھیں تو اللہ تعالی نے بعد از نبی، دنیا کی عظیم ترین ہستی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو تسلی دینے کے لیے باقاعدہ کوئی فرشتہ بھیج کر بی بی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں اور قیامت کے دن بہشت میں پیغمبر اسلام کا مقام اور مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے سیاسی و غیر سیاسی واقعات جیسے موضوعات اس کتاب کا حصہ ہیں۔ اور قرآن مجد کے علاوہ بہت سی باتیں اس میں ہیں اوریہ کتاب یکے بعد دیگرے شیعہ ائمہ کی طرف منتقل ہوتی رہی اور اس وقت یہ کتاب امام زمانہ کے ہاتھ میں موجود ہے۔ ائمہ کے علاوہ اس کتاب تک کسی اور کو رسائی حاصل نہیں رہی۔ بعض علمائے اہل سنت مدعی ہیں کہ شیعہ "مصحف فاطمہ" کے نام سے ایک اور قرآن رکھتے ہیں۔[3] لیکن ائمہ معصومین نیز شیعہ علما نے ہمیشہ اس بات کی نفی کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ "مصحف فاطمہ" قرآن نہیں ہے بلکہ قرآن کے علاوہ ایک اور کتاب ہے اور یہ قرآن سے تین گنا بڑی کتاب ہے اور اس میں قرآن کی ایک آیت بھی نہیں ہے۔ اور شیعوں کا قرآن بھی وہی ہے جو تمام دیگر مسلمانوں کا ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ الصفار، بصائر الدرجات، ص 152
- ↑ الصفار، بصائر الدرجات، ص153.
- ↑ سبيل الإسلام للرد على الشبهات حول الإسلام العظيم ونبيه الكريم آرکائیو شدہ 2010-06-12 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]