مضطر نظامی
مضطر نظامی 18 اگست 1909 کو ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ درس و تدریس میں گزارا ، ساتھ ساتھ شعر و سخن کا مشغلہ بھی جاری رکھا۔ ان کا اصل نام خدا بخش اور بیٹے طاہر نظامی کی نسبت سے کنیت ابو طاہر ہے۔ ان کے بیٹے طاہر نظامی بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تدریس اور شاعری سے وابستہ ہیں۔
تعلیم و تدریس
ترمیممضطر نظامی نے ابتدائی تعلیم پسرور کے اس کو ل امریکن مشن سے حاصل کی۔ 1929 میں گورنمنٹ انٹر کالج پسرور سے میٹرک ، 1934 میں جامعہ پنجاب سے ادیب عالم درجہ اول میں پاس کیا۔ 14 سال کے وقف کے بعد 1948 میں جامعہ پنجاب سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ 1937 میں بطور استاد عملی زندگی کا آغاز کیا جو 31 جون 1967 کو ڈی سی ہائی اسکول قلعہ سوبھا سنگھ، تحصیل نارووال سے ریٹائر پر اختتام پزیر ہوا۔ ان کا کلام مختلف رسائل و جرائد میں تو شائع ہوا مگر باقاعدہ کتابی شکل میں 2020 تک شائع نہیں ہوا۔
مضطر نظامی پر تحقیقی مقالے
ترمیممضطر نظامی پر اب تک دو مقالے لکھے جاچکے ہیں جو پی ایچ ڈی کی سطح تک تو نہیں البتہ ایم فل کے مقام تک ہیں۔
- ’’مضطرؔ نظامی: حیات اور فن‘‘ مرزا محمد صدیق (1995 ) [1]
- ’’تدوینِ خدا بخش مضطرؔ نظامی‘‘ محمد افضال (2017)ـ
دونوں مقالے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تحریر ہوئے۔
نمونہ کلام
ترمیممندرجہ ذیل شعر درس گاہوں میں بہت معروف ہے اور مکمل نظم یکم مئی 1968 کو روزنامہ نوائے وقت میں بھی شائع ہو چکی ہے[2]۔
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوجاتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
’’پاک درس گاہیں‘‘ کے عنوان سے نظم بھی قدرے معروف ہے درسگاہوں میں:
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
صرف کرتا ہے جگر کا خون معمارِ عظیم
قوم کے کردار کی تشکیل ہوتی ہے یہاں
تربیت اطفال کی دراصل ہے افضل جہاد
روح تک اُستاد کی تحلیل ہوتی ہے یہاں
چشمِ ظاہر بیں کتابی علم تک محدود ہے
فیضِ روحانی کی بھی تحصیل ہوتی ہے یہاں
رحمتِ باری کا مضطرؔ دیکھ ہوتا ہے نزول
صبح دم قرآن کی ترسیل ہوتی ہے یہاں
وفات
ترمیممضطر نظامی 9 اکتوبر 1969 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ مضطر کا ذکر ڈاکٹر منیر احمد کی کتاب "وفیات ناموران پاکستان" میں بھی ملتا ہے[3]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ خدا بخش مضطر نظامی: حیات اور فن ، محمد رفیق مرزا ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
- ↑ "نوائے وقت ، 10 فروری 2017"
- ↑ وفیات ناموران پاکستان ،ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ ،لاہور، اُردو سائنس بورڈ، 2006ء، ص 830