تفسیر بغوی
معالم التنزیل ہندوستانی علما اپنے عرف میں تفسیر بغوی حسین بن مسعود بغوی (وفات 433ھ/436ھ-516ھ/1122ء) کی تصنیف کردہ مشہور اور قدیم سنی تفسیر ہے
مفسر
ترمیمعلامہ بغوی مصر کے رہنے والے ہیں اور مسلکاً شافعی ہیں، ان کی کنیت ’’ابو محمد‘‘ اور نام حسین بن مسعود ہے، علمِ لغت، علمِ قرأت کے علاوہ فقہ میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں، انھوں نے اپنی تفسیر میں عہدِ رسالت سے لے کر پانچویں صدی تک کے اکابرِ امت کے ارشادات سے استفادہ کیا ہے،
تفسیر کی خصوصیات
ترمیمتفسیر بغوی اپنی نمایاں خصوصیات کے حوالے سے کافی مشہور و معروف رہی ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اِس تفسیر سے متعلق لکھا ہے کہ: امام بغوی کی یہ تفسیر جو ’’معالم التنزیل‘‘ یا ’’تفسیر بغوی‘‘ کے نام سے مشہور ہے، علمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ امام بغوی پانچویں صدی ہجری کے اواخر اور چھٹی صدی ہجری کے اوائل کے بزرگ ہیں اور انھوں نے یہ تفسیر اِس غرض سے لکھی ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر میں روایت و درایت کو جمع کرتے ہوئے ایک ایسی اوسط ضخامت کی کتاب سامنے آئے جو نہ بہت مختصر ہو، نہ بہت طویل، تفسیر سے متعلق ضروری مواد بھی آجائے اور اُن کی تفسیر کو علما و محققین کی نظر میں مندرجہ ذیل اِمتیازات بھی حاصل ہوئے کہ:
- یہ متوسط ضخامت کی تفسیر ہے جو قرآن کریم کی فہم میں بہت مدد دیتی ہے اور جس میں قرآن کریم کے مضامین تفسیری مباحث کی تفصیلات میں گم نہیں ہو پاتے۔
- امام بغوی چونکہ ایک جلیل القدر محدث بھی ہیں، اِس لیے اِس کتاب میں عموماً مستند روایات لانے کا اہتمام موجود ہے، ضعیف اور منکر روایات اِس تفسیر میں کم ہیں۔
- وہ اسرائیلی روایات جن سے اکثر تفسیریں بھری ہوئی ہیں، اِس کتاب میں زیادہ نہیں ہیں۔
- امام بغوی نے زیادہ تر زور قرآن کریم کے مضامین کی تفہیم پر دِیا ہے اور نحوی اور کلامی مباحث کی تفصیلات سے گریز کیا ہے۔[1][2]
’’تفسیرِ بغوی‘‘ میں تفسیر الثعلبی کا اختصار کیا گیا ہے۔ احادیث،آثارِ صحابہ وتابعین سے یہ تفسیر بھری پڑی ہے، شانِ نزول بھی روایات کے حوالوں سے بیان فرماتے ہیں، اس تفسیر میں تفسیرِ خازن اور تفسیرِ ابن کثیر کے حوالے بھی خوب ملتے ہیں؛ البتہ روایات کے ضمن میں اسرائیلیات بھی درآئی ہیں، علامہ بغویؒ تحقیقِ لغات میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، اس تفسیر میں اس کے مظاہر ملتے ہیں، اسی طرح فقہی مسالک اور مسائل کو بھی بیان کیاہے؛ چونکہ مختلف قرأ توں کی وجہ سے تفسیر کے معانی ومفاہیم میں وسعت پیدا ہوتی ہے؛ اس لیے موصوف نے قرأ ت کی تفصیلات بھی خوب بیان فرمائی ہیں۔[3]