معصومہ آباد (پیدائش 5 ستمبر 1962) ایک ایرانی مصنفہ ،یونیورسٹی پروفیسر [1] اور قدامت پسند سیاست دان ہیں[2] ۔ وہ تہران کی چوتھی اسلامی شہری کونسل کی رکن اور ڈائریکٹر ہیلتھ ڈویژن ہیں۔ معصومہ آباد معروف کتاب " میں زندہ ہوں" کی مصنفہ ہیں [1]۔

معصومہ_آباد

تعلیم

ترمیم

معصومہ آباد نے 1989 میں ایران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی [3]۔ 1996 میں ایران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز سے حفظان صحت میں ایم ایس سی اور 2011 میں شاہد بہشتی یونیورسٹی سے حفظان صحت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

قید میں گزارے ایام

ترمیم

ایران۔عراق جنگ کے دوران ایرانی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (آئی آر سی ایس) کے لیے اسپتالوں اور دیگر طبی کلینک کی تعمیر و انتظام میں معصومہ آباد نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ جنگ کے تریسٹھ دن بعد جب وہ ہلال احمر کے ایک مشن پر تھیں فاطمہ ناہدی ، مریم بہرامی اور حلیمہ اجمودہ سمیت  عراقی فوجی دستوں نے  ان لوگوں کوآبادان کی شاہراہ پر (15 اکتوبر 1980) پکڑ لیا تھا۔ پہلے انھیں تنومہ سرحدی کیمپ بھیجا گیا اور پھر انھیں ایسٹخبرات (صدام کی خفیہ ایجنسی) اور الرشید جیلوں میں بھیجا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کو  موصل اور الانبار کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔تین سال اور چھ ماہ بعد 21 اپریل 1983 کومعصومہ آباد کو رہا کیا گیا[4]۔

کتاب "میں زندہ ہوں

ترمیم

"میں زندہ ہوں" ایک یادداشت ہے جس میں معصومہ آباد نے ایران عراق جنگ کے دوران اپنے تجربات کی تفصیل لکھی ہے ،کتاب جیل میں گزارے ایام کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کو ایران میں 16 ویں مقدس دفاعی کتاب کا ایوارڈ ملا ہے [5]۔ اس کتاب میں جنگ میں حصہ لینے والی ایرانی خواتین کے کچھ کرداروں پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے[6]۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "نقدی بر کتاب من زنده ام/بخش اول"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2015 
  2. "Tehran Managerial Model for Health, Safety and Environment"۔ Tehran official web site۔ 25 نومبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2015 
  3. "Central Tehran Branch - Islamic Azad University"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2015 
  4. "من زنده ام"۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2015 
  5. "من زنده‌ام هم‌چنان پرچاپ‌ترین کتاب کشور"۔ mashreghnews (بزبان الفارسية)۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2015 
  6. "من زنده‌ام تا زمانی که غیرت مردان و زنان ایران زنده است"۔ farsnews (بزبان الفارسية)۔ 24 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2015