مقبرہ ستگھرہ :جو ضلع اوکاڑہ میں ہے میرچاکر رند نے بلوچستان سے ہجرت کرکے وسطی پنجاب میں ستگھرہ آ کر آباد ہوا ستگھرہ پہنچ کر بلوچ سردار نے پرانے گاؤں کے ساتھ نیا گاؤں آباد کیا۔ اس کے ارد گرد عظیم الشان قلعہ تعمیر کیا۔ 1565ء میں میرچاکر رند نے وفات پائی تو اس کی آخری آرام گاہ پر اس کے قبیلے والوں نے شاندار مقبرہ تعمیر کیا جو مقبرہ ستگھرہ سے معروف ہے اور بہت عرصے تک مقبرے کی دیکھ بھال کی گئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میر چاکر کے ساتھ آباد ہونے والے بلوچ خاندان رفتہ رفتہ ادھر ادھر کے علاقوں میں جانے لگے اور آج ان بلوچ قبائل کے نام لیوا پنجاب کے بیشتر علاقوں میں موجود ہیں۔ ہشت پہلو مقبرے کا جو حصہ ابھی موجود ہے وہ اس کی عظمت رفتہ کا پتہ دیتا ہے اب سے 183 سال قبل رنجیت سنگھ نے ملتان جاتے ہوئے یہاں قیام کیا تھا اس کی فوجوں نے مقبرے کی چھت گرا دی اور اس کے نقش و نگار کو برباد کر دیا مقبرے کے اندر مٹی کی سات قبریں ہیں درمیانی قبر پر ایک چھوٹی سی تختی رکھی ہے۔ جومیر چاکر کا مقبرہ ہے۔ [1] ستگھرہ سے مراد سات گاؤں یا قلعے ہیں پانچ ان کے بیٹوں کے اور دو ان میاں بیوی کے۔ ست گھرہ میں آج بھی ایک قلعے کے کھنڈر موجود ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میر چاکر خان نے کروائی تھی۔ بعد میں اس پر سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہاں سات قبریں بھی موجود ہیں جو ان کے خاندان کی ہیں میر چاکر اور بی بی ہانی کی قبر درمیان ہے اور دونوں جانب ان کے بیٹے مدفون ہیں ۔[2] میر چاکر کا مزار ستگھرہ میں مغل طرز تعمیر پر بنایا گیا ہے۔ صدری روایت کے مطابق بگٹی قبیلے کا سردار اکبر بگٹی جب کبھی مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے آتا تھا۔ تو دور سے ہی اپنی سورای سے اتر کر پیدل آتا تھا۔ اور اپنے پاؤں سے جوتی بھی اُتار دیتا تھا۔ فاتحہ خوانی کے بعد ننگے پاؤں واپس جا کر اپنی سواری پر سوار ہوتا تھا۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. پاکستان کے آثارِ قدیمہ ،شیخ نوید اسلم
  2. "riazshahid.com"۔ 11 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2016 
  3. "Mir Chakkarــــــ میر چاکر ــــــــ - Pegham - Seekho Aur Sikhao!"۔ 07 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2016