مقبرہ شہاب الدین غوری
مقبرہ شہاب الدین غوری جی ٹی روڈ سوہاوہ ، ضلع جہلم سے اندر دھمیک میں واقع ہے۔ جس کا فاصلہ تقریبا پندرہ کلومیٹر بنتا ہے سلطان شہاب الدین غوری کے مقبرہ تک جانے والی سڑک کی چوڑائی صرف آٹھ فٹ ہے اور روڈ کی حالت زار بھی قابل رحم ہے۔ مقبرہ کے ارد گرد کوئی آبادی بھی نیں بلکہ میدانی علاقہ ہے اور کاشت کی جانے والی زمینیں ہیں جن میں یہاں ارد گرد کے مکین فصلیں کاشت کرتے ہیں ۔ سلطان شہاب الدین غوری 15 مارچ 1206ء کو لاہور راولپنڈی کی جرنیلی سڑک کی اس نواحی بستی دھمیک میں آئے اور نماز عشاء کی ادائیگی کے دوران انھیں شہید کر دیا گیا ۔ سلطان شہاب الدین غوری کی قبر کے بارے میں سب سے پہلے جنرل شیر علی خان نے دریافت کیا کہ ان کی قبر پاکستان میں اس مقام پر واقع ہے کیونکہ بقول ان کے شہاب الدین غوری ان کے خواب میں آتے تھے اور ان کی قبر کی زیارت بھی ان کو متعدد بار خواب میں ہو چکی تھی۔ مگر ان کو جگہ کا علم نہ تھا کہ یہ کونسی جگہ ہے چنانچہ انھوں نے اس پر اپنی محنت کی اور ان کی قبر کو تلاش کرنا شروع کر دیا کہ یہ کس جگہ موجود ہے اور آخر ان کی محنت رنگ لائی اور وہ دھمیک آپہنچے۔ جنرل شیر علی کو خواب میں جب شہاب الدین کی زیارت ہوئی اور وہ 1985ءمیں جب یہاں آئے تو انھوں نے مقامی لوگوں سے رابطہ کیا،تو معلوم ہوا کہ واقعی اس قبر کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ غوری کی قبر ہے۔ لیکن غوری کے بارے میں جانتے نہ تھے کہ یہ غوری کون ہے جنرل شیر علی جب قبر پر گئے تو یہ وہ ہی قبر تھی جو خواب میں قبر دیکھ چکے تھے ۔ اس لیے انھوں نے پہچان لی کہ یہ ہی وہ قبر ہے جس کو متعدد بار انھوں نے خواب میں دیکھا ہے۔ چنانچہ انھوں نے یہاں صفائی کرائی اور قبر کے اردگرد سمیت دیگر کافی جگہ کے گرد خار دار تاریں لگوا دیں۔ اس کے بعد انھوں نے ڈاکٹر قدیر خان کو اس جگہ تب لانے کا سوچا کہ جب بھارت نے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا تو پرتھوی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان میں دہلی اور اجمیر کا راجا تھاجسے شہاب الدین غوری نے شکست دی تھی اس کے نام پر میزائل کا نام رکھا گیا تھا چنانچہ انھوں نے پرتھوی میزائل کے جواب میں غوری میزائل بنایا چونکہ ڈاکٹر صاحب کے آباﺅاجداد کا تعلق بھی ”غور“ سے تھا، تو انھیں جنرل شیر علی نے اس جگہ اور شہاب الدین غوری کے بارے میں بتایا چنانچہ انھوں نے سلطان کی قبر کا دورہ کیا ان کے ساتھ جنرل شیر علی بھی آئے ڈاکٹر صاحب یہاں آئے تو ان کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر نم ہوگئیں کہ ایک عظیم بادشاہ کی قبر کی یہ حالت ہے اس کے بعد ڈاکٹر قدیر خان نے نہ صرف قبر کے اردگرد جگہ خریدی، بلکہ اس کے ساتھ مدرسے کی جگہ بھی خریدی، جس پر غوری مسجد تعمیر کرائی گئی صدیوں سے یہاں اس قبر کو غوری دی قبر کہا جاتا تھا، لیکن کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ غوری کون تھا یہ قبر چونکہ کافی اونچائی پر تھی اور اس کے اردگرد خاصے درخت تھے،اس جگہ کھیل تماشے ہوتے تھے میلے لگتے تھے بیل دوڑ سمیت دیگر بہت سے کھیل یہاں پر منعقد کیے جاتے تھے کیونکہ یہ ایک میدانی اور کھلا علاقہ تھا یوں یہاں پر غوری کے مزار اور مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوااور مزار تیار ہو گیا مزار کے بیرونی داخلی دروازے سے اندر جایا جائے تو مزار اونچائی پر ایک تمکنت سے کھڑا دکھائی دیتا ہے دور سے اگر اس کا نظارہ کیا جائے تو بالکل تاج محل کی طرح دکھائی دیتا ہے مزار اونچی جگہ واقع ہے اس لیے شہاب الدین کی قبر تک سیڑھیاں چڑھ کر پہنچاجاتا ہے سیڑھیوں کے ساتھ بائیں جانب شہاب الدین غوری کی تصویر لگائی گئی ہے مگر بارش اور موسمی اثرات اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کے نقش بھی ماند پڑ رہے ہیں اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ایٹمی میزائل جو شہاب الدین غوری کے نام پر منسوب ہے "غوری" کا ڈیزائن بھی یہاں نسب ہے قبر کے دونوں اطراف شہاب الدین غوری کے بارے میں لکھا ہوا ہے قبر کی سمت کتبے پر سلطان فاتح ہند لکھا ہوا ہے جس پر ان کی آخری آرام گاہ کے ساتھ ساتھ تاریخ شہادت 15 مارچ 1206 بھی درج ہے رپورٹ کے مطابق افغانستان کے علاقے غور سے یہ عظیم فاتح ہندوستان کا سفر کرتا ہوا آیا اور نہ صرف یہاں بلکہ برصغیر پاک و ہند میں اسلامی راج قائم کیا اس کے لیے کئی جنگیں لڑی لیکن بدقسمتی سے اب ان کے مزار کا بیرونی حصہ چاروں جانب سے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہونا شروع ہو چکا ہے یہ مزار جو 1995ءمیں تعمیر ہوا مگر اس کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کر دیاگیاتھا مگر مزار کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ واقعی اس کو آثار قدیمہ بنانے میں کوئی کسر نیں چھوڑ رہا حکومت کی عدم دلچسپی اور محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت کے سبب آج بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شہاب الدین غوری کا مزار پوٹھوہار کی سرزمین جہلم کے قریب واقع ہے جب ہمارا وفد ان کے مزار کی جانب بڑھ رہا تھا تو راستے میں گزرتے ہوئے ارد گرد موجود دیہاتوں کے باسی بھی تعجب سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کون ہیں جو مزار کی جانب جا رہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ مزار پر کسی سیاح کا آنا جانا نیں نہ ہی راستے میں کسی جگہ کوئی بورڈ یا تحریر نظر آئی کہ مزار اس طرف ہے یہ تو اللہ بلا کرے گوگل کا جس نے ہمیں دربار تک پہنچا دیا مزار میں جانے اور آنے تک کوئی بھی سیاح یا شخص وہاں پر نیں آیا اور مزار کی حالت زار سے لگ بھی یہی رہا تھا کہ جیسے سالہا سال بعد ہی کوئی سیاح یا زائرین کوئی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا یہاں آتا ہوگا حکومت کو اور خاص طور پر محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیے کہ ان کے مزار تک کی سڑک کو چوڑا کیا جائے اور کارپٹ روڈ بنائی جائے تاکہ مزار پر آنے والے آسانی سے آسکیں اس کے علاوہ سفری سہولت بھی دی جائے جو جی ٹی روڈ سے مزار تک ہو تاکہ جو سیاح آنا چاہتے یا جنکو اس جگہ کا علم نیں وہ بغیر کسی سفری پریشانی سے آسانی سے آسکیں اور اس تاریخی شخصیت کے مزار پر حاضری دے سکیں اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر جی ٹی روڈ سمیت مزار کے راستوں پر بل بورڈ اور سائن بورڈ آویزاں کیے جانے چاہئیے تاکہ ہر ایک کو نہ صرف مزار کے بارے میں علم ہو بلکہ اس سے آنے والے سیاحوں کو بھی جو راستہ معلوم نہ ہونے سے دشواری کا جو سامنا کرنا پڑتا اس سے بھی بچت ہو جائے گی پوٹھوہار ینگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے وفد نے حقیقی معنوں میں اس دورے سے بہت کچھ سیکھا اور تاریخ کے وہ اوراق جو کئی بھول گئے تھے دوبارہ یاد ہو گئے