ملا داد اللہ
پیدائش: 1966ء قندھار میں
انتقال:13 مئی 2007ء
افغانستان کے سابق حکمران طالبان کمانڈر اور دس رکنی مجلس شوری کے سب سے نمایاں رکن کے طور پر پہچان رکھنے والے۔
طالبان سے تعلق
ترمیمملا داد اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان رہنما ملا عمر کے ملڑی چیف تھے اور ان کا شمار ملا عمر کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
2002ء میں
ترمیمسن دو ہزارایک میں طالبان کی حکومت گرنے کے وقت ملا داد اللہ شمالی افغانستان میں تھے اور قندوز میں ایک ہزار طالبان جنجگجوؤں کے ساتھ گھیرے میں لے لیے گئے۔ اطلاعات کے مطابق جب ملا داد اللہ شمالی اتحاد کے فوجی دستوں کے گھیرے میں آ گئے تو انھوں اس شرط پر ہتھیار ڈالنے پر رضامندگی ظاہر کی کہ ان کو ساتھیوں سمیت شہر سے باحفاظت نکل جانے دیا جائے۔ کچھ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ملا داد اللہ نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا لیکن وہ وہاں سے غائب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
امریکی قبضے کے بعد
ترمیمسن دوہزار تین میں سامنے والی اطلاعات کے مطابق ملا داد اللہ کو پاکستان میں دیکھا گیا جہاں وہ افغانستان میں جنگ کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے لوگوں کو قائل کر رہے تھے۔ سن دو ہزار تین میں طالبان کے رہمنا ملا عمر نے ملا داد اللہ کو طالبان مجلس شوری میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ملا داد اللہ اورزگان علاقے میں طالبان رہنما رہے۔
وجہ شہرت
ترمیمملا داد اللہ اس وقت اخباروں کی شہ سرخیوں میں آئے جب انھوں نے اعلان کیا کہ پیغمبر اسلام کے کارٹون بنانے والوں کو قتل کرنے والے کو ایک سو کلو گرام سونا انعام کے طور پر پیش کریں گے۔
افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے بارے میں ملا داد اللہ نے کہا تھا کہ’ کافر‘ خود کش حملہ آوروں کا راستہ نہیں روک سکتے اور وہ امریکی اور ان کے حمایتوں کے خلاف اپنا جہاد جاری رکھیں گے۔
ملا داد اللہ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ افغانستان میں طالبان طیاروں کو گرانے کے لیے ایک نیا ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے پاس سینکڑوں خودکش بمبار ہیں جو ان کے حکم پر افغانستان میں موجود غیر ملکی فوجیوں کے خلاف آپریشن کر سکتے ہیں۔
ملا داد اللہ کا تعلق جنوبی افغانستان میں ہونے والی اغواء کی حالیہ وارداتوں سے بھی جوڑا جاتا رہا۔ ملا داد اللہ کی جانب سے غیر ملکیوں کے سر قلم کیے جانے کی ویڈیوز بھی جاری کی جاتی رہی ۔
ملا داد اللہ کا نام ان طالبان رہنماؤں میں شامل تھا جنہیں افغانستان کی حکومت نے پاکستان سے واپس لانے کے لیے کہا تھا۔
ہلاکت
ترمیم2007ء میں اتحادی افواج اور افغان انتظامیہ نے کئی دفعہ ان کی گرفتاری کے دعوے کیے لیکن وہ سب غلط ثابت ہوئے۔ آخر کارمئی دو ہزارسات میں ملک کے جنوبی حصے میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔ لیکن طالبان نے ان کی ہلاکت کی تردید کی۔