مندر چونی لال
لاہور کے آثارِ قدیمہ
یہ مندر موڑ سمن آباد سے چند قدم پر واقع ہے۔ اس مندر کی تاریخ کے متعلق کوئی خاص مواد دستیاب نہیں۔ مندر دکھنے میں تو سکھ دور کا لگتا ہے لیکن اس کا تذکرہ کہنیالال ہندی و سید لطیف نے نہیں کیا۔ چونکہ یہ مندر بیرون لاہور میں آتا ہے اور بیرون لاہور کی فقط چند عمارتوں کا ہی ان مورخین نے ذکر کیا ہے۔ نیز شاید یہ کوئی خاص عمارت نہ ہو گئی، اس لیے بھی اس کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ اس مندر کی بابت یہاں ارد گرد کے کافی لوگوں سے معلوم کیا مگر کسی کو کچھ پتا نہیں تھا۔ پھر قریب ہی موجود ایک عمر رسیدہ حجام سے ملاقات ہوئی۔ موصوف کا نام خورشید احمد ہے اور کوئی ساٹھ برس سے یہاں رہائش پزیر ہیں۔ انہی نے مندر کا نام بتایا۔ خورشید صاحب کا کہنا تھا کہ مندر کافی وسیع تھا اور اس کے آگے ایک برآمدہ تھا۔ مندر پر نقاشی بھی انھوں دیکھ رکھی ہے۔ ان کے بقول مندر پر مور اور ہاتھی کی مورت جا بجا بنی ہوئی تھی۔ اس کا گنبد کافی اونچا تھا نیز مندر کی کرسی بھی بلندی پر رکھی گئی تھی۔ مندر کے داخلہ دروازے تک پہنچنے کے لیے چار سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ اس جگہ کو سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کے دور میں کچی آبادی قرار دیا گیا اور یہاں لوگوں کو زمین دی گئی۔ اس علاقہ کا موجودہ نام المزمل کالونی ہے۔ البتہ اب بھی اگر ویگن یا چنگچی رکشہ میں سفر کیا جائے تو وہ اس کو مندر اسٹاپ ہی کہتے ہیں۔
1992ء میں جب بھارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو پاکستان میں لوگ خاصے مشتعل ہو گئے، بلکہ شاید بعض لوگوں نے نفرت کی ترویج کے لیے انھیں اشتعال دلایا۔ انہی متشدد لوگوں کی سربراہی میں پاکستان کے طول و عرض میں بغیر جانے اور سوچے سمجھے غیر مسلم تاریخی عمارات و عبادت گاہوں پر حملہ کیا گیا۔ ان بدقسمت عمارات میں یہ مندر بھی شامل تھا۔ قاضی صاحب کے بقول انھوں نے بھی اس مندر کا شاندار و بلند گنبد دیکھ رکھا ہے۔ خورشید صاحب نے بتایا کے جب لوگ اس مندر کو منہدم کرنے کے لیے جمع ہوئے تو انھیں گنبد گرانے میں خاصی دقعت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کی تمام تر کوشش کے باوجود گنبد کے ٹکڑے نہیں ہوئے۔ آخر کار پورا گنبد ہی ساتھ موجود ان کے کمروں پر آ گرا۔ اس کی وجہ سے ان کے گھر کے نہ صرف دونوں کمرے مسمار ہو گئے بلکہ ان میں موجود ان کی بیٹی کے لیے بنایا گیا جہیز کا سامان بھی برباد ہو گیا۔ اس سب تماشے میں ان کے ہونے والے نقصان کی برپائی کسی نے نہیں کی۔ پھر اس سب سے ہمیں کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا، الٹا ہم نے اپنے ہی ہم وطنوں کا نقصان کیا۔
اب سے مندر کے حالات بہت خراب ہیں۔ یہاں اردگرد موجود لوگوں سے جب مندر کی قدامت کے حوالے سے سوال کیا تو روایتی جواب سننے کو ملا کہ جی یہ مندر سینکڑوں سال قدیم ہے۔ بعض نے اس کو مغل عہد کا بتایا۔ لیکن موجودہ عمارت اس دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتی۔ نہ ہی اس مندر کے متعلق لاہور کے مورخین نے کچھ لکھا ہے ایسے میں فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔ احباب میں سے جن کو تاریخی عمارات سے دلچسپی ہے وہ بآسانی اس مندر تک پہنچ سکتے ہیں۔ بس موز سمن آباد سے تھوڑا پہلے یہ مندر موجود ہے۔ [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تحریر : طلحہ شفیق