منٹو مارلے اصلاحات 1909ء

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سے یہ تاج برطانیہ کی طرف سے ہندوستانی رعایا کے لیے اصلاحات کی تیسری قسط تھی۔ انڈین کونسلز ایکٹ 1861ء اور انڈین کونسلز ایکٹ 1892ء کے بعد یہ اصلاحات کا پہلا پیکج تھا جسے اس وقت کے وزیر ہند مسٹر مارلے اور برطانوی ہند کے گورنر جنرل لارڈ منٹو نے مل کر مرتب کیا تھا۔ برطانوی پارلیمان نے ان اصلاحات کے بل کو انڈین کونسلز ایکٹ 1909ء کے نام سے منظور کیا لیکن اِس بل کو شاہی منظوری 25 مئی 1909ء کو ملی۔ عام طور پر ان اصلاحات کو منٹو مارلے اصلاحات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

قانون مجالس ہند، 1909ء
پارلیمانی قانون
مکمل عنوانAn Act to amend the Indian Councils Acts, 1861 and 1892, and the Government of India Act, 1833.
حوالہ9 Edw. 7. c. 4[1]
تواریخ
شاہی منظوری25 مئی 1909ء

پس منظر

ترمیم

1905ء میں تقسیم بنگال کی وجہ سے ملک میں سیاسی بے چینی بڑھ گئی تھی۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے بے زار ہوتے جا رہے تھے۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک نئی سیاسی جماعت قائم ہو چکی تھی۔ آل انڈیا نیشنل کانگریس انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی تھی۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز انگریز افسروں پر قاتلانہ حملے روز کا معمول بن چکے تھے۔ 1905ء میں جاپان کے ہاتھوں زار روس کی شکست سے ہندوستانیوں کے حوصلے برطانوی سامراجیت کے خلاف بلند ہوتے جا رہے تھے۔ ان حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انگریزوں نے ہندوستانیوں کے سامنے انڈین کونسلز ایکٹ 1909ء کے تحت کچھ اصلاحات رکھیں۔

اہم شقیں

ترمیم

اس ایکٹ کی اہم شقیں درج ذیل ہیں:

  1. مرکزی اور صوبائی لیجسلیٹیو کونسلوں میں توسیع کر دی گئی۔ اور ان میں ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔
  2. مرکزی اور صوبائی لیجسلیٹیو کونسلوں میں نامزد اور سرکاری اراکین کے مقابلے میں منتخب اور غیر سرکاری اراکین کی تعداد زیادہ کر دی گئی۔ اور یوں مرکزی کونسل کے کل 60 نشستوں کے ایوان میں سے 32 نشستیں غیر سرکاری اراکین کے لیے اور 28 نشستیں سرکاری اور نامزد اراکین کے لیے مختص کر دی گئیں۔
  3. مرکزی لیجسلیٹیو اسمبلی میں ہر رکن کو بجٹ سے متعلق بحث میں حصہ لینے، ٹیکسوں میں رد و بدل، کسی نئے قرضے سے متعلق یا پھر مقامی حکومتوں کو دیے جانے والے عطیات کے بارے میں قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔
  4. وزیر ہند کی کونسل میں دو ہندوستانیوں (ایک ہندو اور ایک مسلمان) کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
  5. مرکزی اور صوبائی ایگزیکیٹیو کونسلوں میں مزید ایک ایک ہندوستانی ممبر کا اضافہ کیا گیا۔ لارڈ سنہا پہلے ہندوستانی تھے جو ان اصلاحات کے نتیجے میں وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل کے رکن مقرر ہوئے۔
  6. جداگانہ انتخاب کا طریقہ رائج کرنے کی منظوری دے دی گئی۔

ہندوستانیوں کا رد عمل

ترمیم

ان اصلاحات پر ہندوؤں کی طرف سے ملا جلا رد عمل ہوا۔ بعض ہندو رہنماؤں نے ان کو ہوم رول کی طرف پہلا قدم قرار دیا۔ آل انڈیا لیگ نے جداگانہ طریقۂ انتخاب کے نفاذ کا خیر مقدم کیا اور اسے اپنی پہلی کامیابی قرار دیا۔ یہ مطالبہ مسلم زعما نے تین سال قبل 1906ء میں شملہ وفد میں لارڈ منٹو سے ملاقات کے دوران کیا تھا۔

نتائج

ترمیم

ان اصلاحات کی بدولت انگریز سرکار کسی حد تک ہندوستانی مقننہ میں ہندوستانیوں کی نمائندگی بڑھانے، ہندوستانیوں میں قومیت کے ابھرتے ہوئے رجحانات کو روکنے، سیاسی شورش وقتی طور پر کم کرنے اور عام لوگوں کو ممنون احسان بنانے میں کامیاب رہی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم اور ان کی ملکہ ہندوستان تشریف لائے۔

12 دسمبر 1911ء کو دہلی میں منعقد ہونے والے عظیم الشان دربار میں شاہِ معظم کی رسم تاجپوشی ادا کی گئی۔ اس موقع پر ہز میجسٹی جارج پنجم نے مندرجہ ذیل اہم اعلانات کیے:

تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان

2۔ کلکتہ کی بجائے دہلی کو حکومت ہند کا پایۂ تخت مقرر کرنے کا اعلان

3۔ دہلی کے قریب ایک نیا شہر رائے سینا (نئی دہلی) کو آباد کرنے کا اعلان

4۔ بہار، اڑیسہ، چھوٹا ناگپور پر مشتمل ایک نیا صوبہ بنانے کا اعلان

5۔ ہندوستان میں تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لیے سالانہ پچاس لاکھ روپیہ مختص کرنے کا اعلان

حوالہ جات

ترمیم
  1. Ilbert 1911، صفحہ 243