موضحِ قرآن اردو میں پہلا با محاورہ ترجمہ موضحِ قرآن (1790ء) میں لکھا گیا۔ اس کے مترجم شاہ عبدالقادر دہلوی بن شاہ ولی اللہ دہلوی ہیں، شاہ عبد القادر نے موضح قرآن اردو میں پہلا بامحاورہ ترجمہ 1790ء میں لکھا۔ یہ ترجمہ متعدد بار چھپ چکا ہے۔ اس کا ایک ایڈیشن لاطینی رسم الخط میں کلکتہ سے 1876ء میں T.P. Hugh کے دیباچے اور پادری ای۔ ایم ویری E.M. Wherry کے ایڈیشن کے ساتھ شائع ہوا۔ اس ترجمے کو ان کے بھائی شاہ رفیع الدین کے ترجمے کے مقابلے میں زیادہ صاف اور بامحاورہ سمجھا جاتا ہے۔ شاہ عبد القادر کا اردو ترجمہ "موضح قرآن” اپنی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں میں "الہامی ترجمہ” کے نام سے مشہور رہا ہے۔ اور حقیقت میں یہ قرآن کریم کا واحد ترجمہ ہے جو اردو میں پہلا با محاورہ ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنی الفاظ کی ترتیب اور اس کے معانی و مفہوم سے حیرت انگیز طور پر قریب ہے۔ شاہ صاحب نے اس ترجمہ کی تکمیل میں تقریباً چالیس سال جو محنت شاقہ اٹھائی ہے وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قرآن کریم کا یہ ترجمہ اردو زبان کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ شیخ الہند نے اس ترجمہ میں متعدد خوبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے۔ ’’شاہ عبد القادر کا ترجمہ جیسے استعمال محاورات میں بے نظیر سمجھا جاتا ہے ویسے ہی باوجود پابندی محاورہ، قلت تغیر اور خفت تبدل میں بھی بے مثل ہے“۔ اس ترجمہ کے ساتھ شاہ صاحب نے مختصر حواشی بھی تحریر فرمائی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ترجمہ لا تعداد مرتبہ مستقل بھی طبع ہوا اور متعدد مفسرین نے اپنی تفسیر کے اوپر ترجمہ قرآنی کے لیے اسی کا انتخاب کیا۔ شاہ عبد القادرؒ کے ترجمہ کے متعلق پروفیسر نثار احمد فاروقی کی رائے ملاحظہ فرمایئے تاکہ معلوم ہو کہ انھوں نے کس طرح مثالوں کے ذریعہ اس ترجمہ کی خوبیاں بیان کی ہیں: ’’نثری تراجم میں حضرت شاہ عبد القادر دہلوی (وفات 1230 ھ / 1814ء ) کا ترجمہ موضح قرآن 1200ھ اردو زبان میں قرآنی مطالب کو فصاحت اور سلاست کے ساتھ آسان اور دلنشین اسلوب میں پیش کرنے کی بہترین کوشش ہے۔ مثلاً انھوں نے ’وکلمۃ اللہ ہی العلیا‘ کا ترجمہ یوں کیا ہے ’اور اللہ ہی کا بول بالا ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ اردو میں اس سے بہتر اور کوئی ترجمہ ان الفاظ کا ممکن نہیں۔ ’اللہ الصمد‘ کا ترجمہ کرتے ہیں ’اللہ نرادھار ہے‘ ،صمد کا مفہوم ادا کرنے کے لیے کوئی لفظ نرادھار سے قریب نہیں مل سکتا۔‘‘ ایک زمانے تک ان دونوں ترجموں کو اردو والے بڑے شوق و ذوق سے پڑھتے رہے۔ اس کے بعد اردو میں ترجموں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ دیگر علمائے کرام کے قرآن پاک کے مشہور تراجم ہماری تاریخ کے درخشندہ ابواب ہیں۔ شاہ صاحب انتہائی خلوت پسند تھے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اسی لحاظ سے بعض بزرگوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ شاہ صاحب نے مسجدِ اکبرآبادی میں چالیس برس اعتکاف کی حالت میں ترجمہ قرآن تحریر فرمایا۔ آپ کے اندر کشف کی بڑی قوت تھی۔

تعارف تفسیر و ترجمہ

ترمیم
  • شاہ عبد القادر کا اردو ترجمہ " موضح قرآن " اپنی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے بر صغیر کے مسلمانوں میں " الہامی ترجمہ " کے نام سے مشہور رہا ہے۔ اور حقیقت میں یہ قرآن کریم کا واحد ترجمہ ہے جو اردو میں پہلا با محاورہ ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنی الفاظ کی ترتیب اور اس کے معانی و مفہوم سے حیرت انگیز طور پر قریب ہے۔ شاہ صاحب نے اس ترجمہ کی تکمیل میں تقریباً چالیس سال جو محنت شاقہ اٹھائی ہے وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قرآن کریم کا یہ ترجمہ اردو زبان کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ شیخ الہند نے اس ترجمہ میں متعدد خوبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے۔
  • " شاہ عبد القادر کا ترجمہ جیسے استعمال محاورات میں بے نظیر سمجھا جاتا ہے ویسے ہی باوجود پابندی محاورہ، قلت تغیر اور خفت تبدل میں بھی بے مثل ہے "۔[1]
  • اس ترجمہ کے ساتھ شاہ صاحب نے مختصر حواشی بھی تحریر فرمائے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔
  • یہ ترجمہ لا تعداد مرتبہ مستقل بھی طبع ہوا اور متعدد مفسرین نے اپنی تفسیر کے اوپر ترجمہ قرآنی کے لیے اسی کا انتخاب کیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. مقدمہ ترجمہ شیخ الہند۔ دارالتصنیف۔ کراچی