مولانا محمد نور کمال صاحب حزیںؔ
مولانا محمد نور کمال صاحب
ولادت با سعادت
ترمیممولانا محمد نور کمال صاحب حزیںؔ 1910 عیسوی بمطابق 1330 ہجری حضرت مولانا شیر علی صاحب کے گھر بقام میلہ مندرہ خیل (ضلع لکی مروت،صوبہ خیبر پختونخوا،پاکستان)پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
ترمیمشعور سنبھالتے ہی تحصیل علم میں مشغول ہوئے۔ اکتساب علم کا یہ سلسلہ اپنے والد بزرگوار سے شروع کیا مگرشوم�ئ قسمت کہ نو سال کی کمسنی میں والد جیسے مربی سے محروم ہونا پڑا۔ والد کی وفات کے بعد آپ نے اپنے بڑے بھائی مولانا امام محمد سے علم فارسی سیکھاجبکہ دیگر علوم وفنون کے لیے علاقہ مروت کے درج ذیل جید علما کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے اور پانچ سال تک ا ن سے فیضیاب ہوتے رہے۔ ٌ
- مولانا محمد حسن صاحب لکی مروت
- مولانا سعید خان صاحب ہاتھی خان لنگر خیل
- مولانا محمد حسن صاحب وانڈہ امیر
- مولانا تاج محمدصاحب مٹورہ
اعلیٰ تعلیم
ترمیماعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے چودہ سال کی عمر میں ہندوستان ہجرت کی اور ایک سال تک وہاں کے مشہور و معروف مدرسہ عربیہ مظاہر العلوم میں درج ذیل نامی گرامی علما سے فیضیاب ہوئے ۔
- مولانا عبد الرحمن صاحب کیمل پوری
- مولانا ظہور الحق صاحب دیوبندی
- مولانا عبد الشکور صاحب کیمل پوری
- مولانا سعد اللہ صاحب رامپوری
بعد ازاں مزید علوم کے لیے آپ دار العلوم دیوبند چلے گئے اور چار سال تک اسی مادرِ علمی کے آغوش میں علم و ادب اور علم الحدیث سے سند فراغت حاصل کی۔ دوران ِ تعلیم آپ مولانا اعزاز علی صاحب، مولانا ابراہیم صاحب بلیاوی اور اس وقت کے دیگر علما کرام کے ذہین و فطین اور ہونہار شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ العرب و العجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب کے اخص الخاص شاگردو خدمتگار رہے۔
تدریسی خدمات
ترمیم1930 عیسوی میں فارغ التحصیل ہوتے ہی ضلع لکی مروت کے ایک گاؤں دبک مندرہ خیل میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور قلیل عرصے میں آپ کی قابلیت کے چرچے چہار سو پھیل گئے۔ علاقہ مروت کے دور دراز علاقوں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں تشنگانِ علم و معرفت، ہجرت کرکے دبک مندرہ خیل اقامت پزیر ہو کر اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ یہ تلامذہ عربی و فارسی،منطق و فلسفہ اور شعر و سخن کے علوم سیکھتے رہے۔
مشہور تلامذہ
ترمیم- مولانا گل سردار تاجہ زئی
- مولانا گل امام مشہ منصور
- مولانا عبد الرزاق سرائے نورنگ
- مولانا محمد رضا ٹھٹی مچن خیل
- صاحبزادہ مولانا عبد اللہ جان زکوڑی
- صاحبزادہ مولاناغلام دستگیرجان زکوڑی
- صاحبزادہ مولاناعبد الجبار زکوڑی
- صاحبزادہ مولاناحمید اللہ جان زکوڑی۔
- مولانا محمد گل وانڈہ جندر
- مولانا میر باز خان زنگی خیل۔
مذکورہ تلامذہ نے درجہ موقوف علیہ تک کے تمام علوم آپ سے سیکھے جبکہ دورۂ حدیث کے لیے دار العلوم دیوبند چلے گئے اور فارغ التحصیل ہوئے۔ جبکہ چاروں فرزندان ( شیخ الحدیث حضرت مولانا عزیز الرحمن ناصرؔ، مولانا محمد طیب کوثرؔ ،مولانا عبد الاحد،مولانا عتیق الرحمن آزادؔ ) نے بھی درجہ موقوف علیہ تک کے تمام علوم آپ سے حاصل کیے جبکہ دورۂ حدیث کے لیے جامعہ اشرفیہ لاہور چلے گئے۔ مذکورہ طلبہ کے علاوہ اور بہت سے تلامذہ پاکستان کے دیگر مدارس سے فارغ التحصیل ہوئے۔
ماضی قریب میں اصاغر تلامذہ میں حضرت کے مشہور شاگرد شیخ طریقت مفتی محمد ایوب سعدی نقشبندی مجددی ہیں جو لکی مروت کے مشہور دینی درسگاہ جامعہ عربیہ سراج العلوم کے اور اب خانقاہ حبیبیہ نقشبندیہ ، جامعۃ الحبیب الاسلامیہ سعدی ٹاؤن لکی مروت کے بانی سجادہ نشین اور مہتمم ہیں۔ جو 40 سال سے مسلسل اپنے علاقے کی خدمت کر رہے ہیں اور تشنگان علوم نبوت کی پیاس بجھا رہے ہیں ان کے شاگرد محراب ومنبر اوردرس وتدریس کے مسند کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ علاقہ کے مشہور خطیب اور جید مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب ، قلم اور صاحب تصنیف بھی ہیں۔ مجمع البرکات فی تحقیق صلوٰۃ الجمعہ فی القریٰ و القصبات، جرعۃ الزلال فی مسئلۃ رؤیۃ الھلال، مفاتیح الخزائن المستورہ یعنی پوشیدہ خزانوں کی چابیاں اور ایک تصنیف آپ کے ہاتھ میں اللہ والوں کے تذکرے کے نام سے عمدہ اور دل پزیر تصانیف ہیں۔
حضرت کے ایک مایہ ناز شاگرد مولانا فیض الرحمان صاحب ہیں جو دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مایہ ناز استاد اور کئی اہم کتب کے مصنف ہیں۔ ان کے تصانیف کتب خانہ بیروت لبنان والے شوق سے چھپواتے ہیں۔ اسی طرح مولانا قاضی باقی باللہ صاحب مدرس جامعہ اشرفیہ لاہور بھی حضرت کے شاگرد رشید ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام تلامذہ حضرت کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین۔
دار العلوم انوار العلوم کی بنیاد
ترمیم1960عیسوی میں اول الذکر دو فرزندان کی جامعہ اشرفیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے دبک مندرہ خیل میں اپنے درس کو مدرسہ عربیہ کی شکل دی۔
انتظام دار العلوم کراچی
ترمیم۔1964 عیسوی میں استاذ محترم حضرت مولانامفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نے اپنی عدم موجودگی میں انتظام دار العلوم کراچی آپ کے سپرد کر کے خود عازمِ سفرِحج ہوئے۔ ان کی واپسی تک آپ نے دار العلوم کراچی میں اپنی خدمات سر انجام دیں لیکن اپنی جنم بھومی (علاقہ مروت ) سے دلی لگاؤ کی وجہ سے آپ حضرت مفتی صاحب سے اجازت لے کر واپس تشریف لائے۔
جامعہ اشرفیہ لاہورمیں تدریس
ترمیم71 ،1970 عیسوی میں آپ نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں بھی اپنی تدریسی خدمات سر انجام دی ہیں۔ جامعہ مذکورہ کے موجودہ استاذ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحیم حاحب چترالی آپ ہی کے شاگرد ہیں۔ اسی دوران آپ نے جامعہ اشرفیہ کے دارالحدیث پر ایک فارسی نظم لکھی جو تا حال جامعہ میں آویزاں ہے۔ دو سال تک پڑھانے کے بعد اپنے علاقے سے محبت اور رغبت آپ کو ایک بار پھر کھینچ لائی۔ دار العلوم لکی مروت میں تدریس :۔ لاہور کی چکاچوند روشنیوں سے بیزاری کے عالم میں جب آپ واپس آئے تو اپنے علاقے کے اکلوتے بڑے اور نامور مدرسے دار العلوم میں اپنی صحت کے آخری حصے تک مشغولِ درس و تدریس رہے۔
مکتوباتِ حزیںؔ
ترمیممکتو باتِ حزیںؔ آپ کی زندگی کا لب لباب ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں آپ نے حافظ و شیرازی کی طرز پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے عشق کی انتہا کردی۔ آپ جوانی سے پیری تک کی عمر میں ایک درویش منش،مرنج و مرنجان،متواضع و منکسر المزاج اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ عشق ِ حقیقی میں مبتلاء ہوکر اللہ تعالیٰ پر یقین کامل اور حبِ رسول میں اس انتہا کو پہنچ چکے تھے کہ ہر لحظہ و ہر آن اِن کی تعریف سے رطب اللسان رہتے جبکہ جاہ وحشمت کے دلدادہ لوگوں سے یکسوئی کو ترجیح دیتے۔ ایسے موقعوں پر آپ کی زبان پر اکثر مکتوباتِ حزیںؔ کا اپنا یہ شعر آتا۔
مسندِ دل پہ ترے عشق کا مقام رہے غیر سے وضع و تملق برائے نام رہے معرفتِ الٰہی اور عشقِ رسول میں مکتوبات حزیںؔ کا مطالعہ مشعل ِ راہ کا کام دیتی ہے۔
آخری ایام
ترمیمآپ ایک زاہد اور حبِ دنیا سے مکمل عاری انسان تھے۔ تحصیلِ دنیا کی طرف بالکل توجہ نہ تھی بلکہ فقیری میں زیست گزارنے کو ترجیح دیتے۔ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے۔ مجھے الفقر فخری سلطنت ہے ہفت کشور کی ہوس تختِ سکندر،جاہِ کسریٰ کی نہیں مجھ کو بگنجِ صبر و توکل حزیںؔ چوں ممنوں گشت چہ حاجتش کہ نویسد بکس حضور و جناب عمر کے آخری چند سال آپ صاحب الفراشی کی وجہ سے درس و تدریس اور اصلاح و پرداخت سے قاصر رہے۔ مگر تلاوتِ قرآن مجید،وردِ کلمہ اور دیگر تسبیحات سے ہمیشہ رطب اللسان رہتے۔ ارتحال موصوف :۔ ایک دن آپ کی طبیعت زیادہ ناساز ہوئی ،ایک کھانسی آئی اور جاں بجانِ آفرین سپرد کرتے ہوئے اس کے جوار میں چلے گئے اور تمام عزیزو اقارب اور معتقدین و تلامذہ کو اشکبار کیا۔ آپ کی خبرِ ارتحال، جنگل میں آگ کی طرح اکناف اطراف میں پھیل گئی اور ملک بھر سے تلامذہ و عقیدت مند ہزاروں کی تعداد میں جنازے میں شریک ہوئے۔ آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت مولانا عزیز الرحمن ناصر ؔ نے پڑھائی۔ معتقدین کا یہ ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر اپنی اشکبار آنکھوں سے آپ کا آخری دیدار کرتے ہوئے بزبان ِ حال یوں گویا تھے۔ یہ کون جا رہا ہے میرا گاؤں چھوڑ کر آنکھوں نے رکھ دیے ہیں سمندر نچوڑ کر مرقدِ پُر نور :۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا جسدِ خاکی مقامِ معہود دبک مندرہ خیل میں اپنی ذاتی زمین میں سپردِ خاک ہے۔
موصوف کے آباء واجداد کا تعلق افغانستان کے مشہور قبیلے ’’ناصر ‘‘سے تھا۔ امیر جمعیت علما اسلام پاکستان ،حضرت مفتی محمود صاحب کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ نقل شجرۂ نسب کلیات موضع پنیالہ نمبر بندوبست 13 خاندان نمبر 114 تحصیل و ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان رجسٹرڈ نمبر 1570/17,11,1967 قوم پٹھان ناصر شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ