مکی نام اورابو السکن کنیت تھی [1] سلسلہ نسب یہ ہے،مکی بن ابراہیم بن بشیر بن فرقد [2]تمیم کے قبیلہ براجمہ کی سب سے مشہور شاخ بنو حنظلہ بن مالک سے خاندانی تعلق رکھتے تھے، اس وجہ سے براجمی،تمیمی اورحنظلی تینوں نسبتوں سے شہرت پائی۔ [3]

مکی بن ابراہیم
معلومات شخصیت
عملی زندگی
نظام المدرسة مدرسہ حديث

نام ونسب ترمیم

وطن اورپیدائش ترمیم

خراسان کا شہر بلخ اس حیثیت سے بہت ممتاز ہے کہ اس کی خاک سے لا تعداد ائمہ،علما اورصلحاء پیدا ہوئے اور بزم علم وعمل کی رونق دوبالا کی،یہی مردم خیز سرزمین 126ھ میں ابو السکن کی ولادت سے مشرف ہوئی۔ [4]

علم و فضل ترمیم

علمی اعتبار سے وہ اکابر اتباع تابعین میں شمار کیے جاتے تھے،انھیں سترہ منتخب روزگار تابعین کے دیدار کی سعادت نصیب ہوئی تھی؛چنانچہ انھوں نے اس گرانبہادولت سے پورا فائدہ اٹھایا اوران تابعین کے چمنستانِ علم کی عطر بیزی سے اپنے دل و دماغ کو معمور کیا،علامہ ذہبی ،الحافظ الامام شیخ خراسان لکھتے ہیں۔ [5]

حدیث ترمیم

ابوالسکن تحصیل علم کا فطری ذوق رکھتے تھے؛چنانچہ صرف سترہ سال کی عمر ہی میں انھوں نے طلب حدیث کے لیے بادیہ پیمائی شروع کردی اور دُوردراز ملکوں کا سفر کرکے سترہ تابعین کے منبع علم سے مستفیض ہوئے ان کے اساتذہ حدیث میں یزید بن ابی عبید،جعفر الصادق،بہزبن حکیم، ابی حنیفہ،ہشام بن حسان ابن جریح،مالک بن انس، یعقوب بن عطاء، فطر بن خلیفہ،حنظلہ بن ابی سفیان،ہشام الدستوائی،جعد بن عبد الرحمن،عبد اللہ بن سعید اورایمن بن نابل کے نام قابِل ذکر ہیں اورتلامذہ میں امام بخاریؒ،امام احمد، یحییٰ بن معین،یحییٰ بن نابل کے نام قابل ذکر ہیں،محمد بن المثنیٰ،عبد اللہ بن مخلد، محمد بن حاتم، ابراہیم بن یعقوب،محمد بن اسماعیل بن علیہ ،یزید بن سنان، احمد بن نضر، محمد بن الحسن بن مکی،ابراہیم بن موسیٰ الرازی،حسن بن عرفہ،محمد بن وضاح،یعقوب بن سفیان،یعقوب بن شیبہ،محمد بن شیبہ،محمد بن یونس اور معمر بن محمد جیسے یگانۂ عصر ائمہ شامل ہیں۔[6]

ثقاہت ترمیم

ان کی ثقاہت وعدالت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی جامع صحیح میں ان کی متعدد مرویات کی تخریج کی ہے [7]اور ابن حبان نے کتاب الثقات میں امام بخاریؒ کے کبار شیوخ میں ان کا نمایاں ذکر کیاہے،علاوہ ازیں خلیلی انھیں ثقہ ،متفق علیہ،دارقطنی ثقۃ مامون،امام احمد ابن معین عجلی اورابو حاتم ثقۃ صدوق کہتے ہیں [8]علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں:کان ثقۃ ۔۔۔۔۔ وکان ثبتا فی الحدیث [9]

عبادت وتدوین ترمیم

علم کے ساتھ عمل میں بھی انھیں نمایاں مقام حاصل تھا کثرت سے عبادت فرمایا کرتے تھے، عبد الصمد بن الفضل راوی ہیں کہ میں نے اکثر ابن ابراہیم کو یہ فرماتے سُنا کہ:حججت ستین حجۃ و جاورت عشرین سنۃ [10] میں نے ساٹھ حج کیے اوربیس سال تک (بیت اللہ) کے قریب رہا۔ عبد اللہ بن مدرک کی روایت کے مطابق شیخ ابن ابراہیم نے بارہ سو دینار مکہ کے مکانوں کا کرایہ ادا کیا تھا۔[11] ساٹھ مرتبہ زیارتِ حرمین کی اہمیت یوں اوربھی بڑھ جاتی ہے کہ اس زمانہ میں سفر حج کی ان سہولتوں اورآسائشوں کا تصور بھی محال تھا جو عہدِ حاضر میں پائی جاتی ہیں،اس وقت حج کا سفر اپنی صعوبتوں اورخطرات کی بنا پر سفرِ آخرت کے مرادف خیال کیا جاتا تھا؛چنانچہ تاریخ بغداد میں اس روایت کے ساتھ "قطعت البادیۃ" کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں،یعنی میں نے بلخ سے مکہ تک بادیہ پیمائی کی۔

وفات ترمیم

15شعبان 215ھ کو بمقامِ بلخ رہ سپار عالم جاوداں ہوئے [12]تقریباً سو سال کی عمر پائی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (طبقات ابن سعد:7/105)
  2. (تہذیب التہذیب:10/293)
  3. (اللباب:1/108 وکتاب الانساب ورق:71)
  4. (تہذیب التہذیب:10/293)
  5. (ایضاً)
  6. (تہذیب التہذیب:10/293،294)
  7. (اللباب فی الانساب:1/108)
  8. (تذکرۃ الحفاظ:1/335وتہذیب:10/295)
  9. (اللباب فی الانساب:1/108)
  10. (تہذیب التہذیب:10/294)
  11. (تاریخ بغداد:13/117)
  12. (البدایہ والنہایہ:10/279،وطبقات ابن سعد:7/109)