مہرین بلوچ
مہرین بلوچ وہ پہلی خاتون باکسر ہیں جنھوں نے کامن ویلتھ گیمز 2022ء میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ اس سے قبل انھوں نے 2019ء میں کٹھمنڈو میں ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز میں کانسی کا تمغا جیتا تھا۔ مہرین بلوچ کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے ہے اور انھیں بھی اپنے کھیلوں کے کریئر کے اوائل میں معاشرتی مسائل کا سامنا رہا[1]
مہرین بلوچ ایک انٹرویو میں کہتی ہیں میں نے جس ماحول میں پرورش پائی اس میں خواتین کا کھیلنا اور خاص کر باکسنگ کو اپنانا بہت مشکل تھا۔ خود ان کے بھائی اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ ان کی بہن باکسنگ کھیلے
مہریں بلوچ اپنے خاندان میں پہلی باکسر نہیں ان کے ایک انکل ملنگ بلوچ جو ان کے والد کے کزن تھے بین الاقوامی باکسر رہے ہیں۔ جبکہ ان۔کے والد فٹ بال سے وابستہ تھے کیونکہ ان کا آبائی علاقہ لیاری فٹ بال کے لیے مشہور تھا۔ اور ان کے والدین کو مہرین کے باکسنگ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا البتہ بھائیوں نے کہا کہ باکسنگ لڑکیوں کا کھیل نہیں ہے اور انھوں نے ناراض ہو کر بات کرنا بھی چھوڑ دی تھی لیکن جب مہرین نے قومی سطح پر تمغے جیتنے شروع کیے تو ان کی رائے بھی تبدیل ہو گئی۔ مہرین بلوچ کہتی ہیں کہ یہ میرا باکسنگ میں ساتواں سال ہے۔ میں جب اس کھیل میں آئی تو مجھ سے پہلے بھی کئی لڑکیاں ٹریننگ کر رہی تھیں لیکن ان کا معیار ایک خاص حد تک ہے اسی لیے میں اپنی کارکردگی میں بہتری اور زیادہ سے زیادہ تجربہ حاصل کرنے کے لیے مرد کھلاڑیوں کے ساتھ ٹریننگ کرتی ہوں۔
مہرین بلوچ کا کہنا ہے ملک میں پہلے خواتین باکسرز اتنی اچھی نہیں تھیں لیکن اب ان کا معیار بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہمیں ان چھ سات برسوں کے دوران ٹریننگ کے لیے بین الاقوامی دورے اور لگاتار ٹریننگ کیمپ مل جاتے تو ہم بھی بہت اچھی کارکردگی دکھاسکتے تھے۔'مہرین بلوچ کہتی ہیں کہ 'کامن ویلتھ گیمز میں آنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ہم دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں بین الاقوامی تربیت اور تواتر کے ساتھ کیمپ کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں تجربہ ملے۔ مہرین بلوچ اس وقت کنٹریکٹ پر پاکستان ایئرفورس سے وابستہ ہیں۔