مہیار الدیلمی
مہیار الدیلمیمشہور شاعر اور ایرانی دیلمی کاتب ہے۔
نام
ترمیمابو الحسن مہیار بن مرزویہ۔ یہ مجوسی تھا پھر مسلمان ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے الشریف الرضی ابو الحسن محمد الموسسوی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور وہ اس کا شیخ تھا۔ اور اسی سے اس نے شعر کے نظم کرنے میں مہارت حاصل کی اور اس نے اس کے بہت سے قصائد کا وزن میں مقابلہ کیاہے۔
قبول اسلام
ترمیمشیخ ابن اثیر جزری نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ اس نے 394ھ میں اسلام قبول کیا تو ابو القاسم ابن ب رہان نے اسے کہا اے مہیار تو آگ میں اپنے اسلوب کے ساتھ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آیا ہے۔ اس نے کہا وہ کیسے؟ اس نے کہا تو مجوسی تھا اور تو اپنے اشعار میں حضرت نبی کریم ﷺ کے اصحاب کو سب و شتم کرتا تھا اور وہ فصیح کلام شاعر تھا۔ اپنے اہل زمانہ کو پیشرو تھا اس کے اشعار کا بڑا دیوان ہے جو چار جلدوں میں ہے اور وہ اپنے قصائد میں شیریں بیان ہے۔
اکابر کے ہاں مقام
ترمیمحافظ ابو بکر الخطیب نے تاریخ بغداد میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے۔ اور کہا ہے کہ میں اسے جمعہ کے دنوں میں جامع المنصور میں حاضر ہوتے دیکھتا تھا یعنی بغداد میں۔ اس کے اشعار کا دیوان اسے سنایا جاتا تھا۔ اور میرے لیے اس سے کچھ سننا مقدر نہ تھا۔ ابو الحسن الباخرزی نے کتاب ” دمیتہ القصر” میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے بارے میں کہا ہے وہ شاعر تھا اور مناسک فضل میں اس کے مشاعر ہیں اور وہ کاتب تھا۔ اس کے ہر لفظ کے نیچے ایک ابھرے ہوئے پستان والی لڑکی نمایاں ہے۔ اور اس کے قصائد کا جو شعر بھی ہے اگر تو حاکم بن جائے تو اس کے خلاف فیصلہ نہ دے سکے گا اور وہ دلوں کے قوالب میں ڈھالے ہوئے ہیں اور ان جیسے اشعار سے گنہگار زمانہ گناہوں سے معذرت کرتا ہے پھر اس کلام کے بعد اس نے اس کے جملہ قصائد کے اشعار و قطعات کا ذکر کیاہے۔ ابو الحسن علی بن بسام نے کتاب ” الذخیرۃ فی محاسن اھل الجزیرۃ” میں اس کا ذکر کیاہے۔ اوراس کی غایت درجہ تعریف کی ہے اور اس کے اشعار کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کا دیوان مشہور ہے۔
وفات
ترمیماس نے 5 جمادی الآخرۃ 428ھ 1037ء کو اتوار کی شب وفات پائی۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ الاعلام خیر الدین زرکلی