میاں محمد جیونایک گاؤں کا نام 1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران میاں محمد جیون نے آباد کیا ،

میاں محمد جیون ترمیم

بزرگوں کی روایت کے مطابق میاں محمد جیون ضلع سرگودھا کے تاریخی قصبہ بھلوال سے حصولِ معاش کے لیے ہجرت کر کے یہاں آئے اور اس مقام پر سکونت اختیار کی۔ میاں محمد جیون نے یہاں کے مسلمانوں کی بطور امام مسجد پیشوائی شروع کی اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے بچوں کو دینی و قرآنی تعلیم دینی شروع کی یوں اُس دور کے رسم و رواج کے مطابق ’’میاں جی‘‘ کہلوانے لگے۔ کیونکہ اُس دور میں جو امام مسجد ہوتا یا بچوں کو دینی تعلیم دیتا اُسے ’’میاں جی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا ۔

محل وقوع ترمیم

گاؤں میاں جیون یونین کونسل پنڈ متے خان میں واقع ہے۔ یہ گاؤں تحصیل سوہاوہ سے چکوال جاتی ہوئی سڑک پر 2 کلومیٹر کے فاصلے پر اور سوہاوہ شہر سے تقریباً 12 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس گاؤں کی زمینیں دو موضعات ‘ موضع ڈھلاڑ درگاہ مل اور موضع خالصہ اندان کی داخلی میں آتی ہیں ‘ یہ گاؤں اب مزیدپانچ چھوٹی بڑی ڈھوکوں اپری ڈھوک‘ حیدری محلہ‘ بُنی ڈہوک ‘ ڈہوک بابا سیدواور خالق آباد پر مشتمل ہے۔ اس گاؤں کی آبادی تقریباً 2 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ گاؤں کے چاروں اطراف میں زرعی زمینیں اور درخت ہیں ۔

شمسی توانائی پروجیکٹ ترمیم

گاؤں ڈہوک میاں جیون میں 1985ء میں شمسی توانائی (سولر انرجی) کا پراجیکٹ لگایا گیا جس کے ذریعے تقریباً 17 سال تک اس گاؤں کے وسنیک مفت بجلی سے مستفید ہوتے رہے ‘ اس پراجیکٹ کو دیکھنے کے لیے مملکت خدا داد پاکستان کے دور دراز علاقوں اور بیرون ممالک سے بھی سیاح مختلف ادوار میں آتے رہے۔ یہ پراجیکٹ اس گاؤں کی پہچان بن گیا۔

تعلیمی سہولیات ترمیم

گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے گورنمنٹ گرلز ایلیمنٹری اسکول ہے جو دو عمارتوں پر مشتمل ہے ایک عمارت میں قاعدہ جماعت سے لے کر پانچویں جماعت کی بچیاں بیٹھتی ہیں جبکہ دوسری عمارت میں ششم جماعت سے لے کر ہشتم جماعت کی لڑکیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہوتی ہیں۔ اس اسکول سے نہ صرف گاؤں میاں جیون کی بچیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں بلکہ آس پاس کے تقریباً 16 دیہاتوں کی بچیاں بھی مستفید ہو رہی ہیں۔ گاؤں کے وسط میں ایک جامع مسجد ہے جس کی حال ہی میں تعمیر نو کی گئی ہے۔ اس مسجد میں بھی تقریباً 20 دیہاتوں کے لوگ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لیے آتے ہیں ۔ گاؤں میں مقیم لوگوں کا رہن سہن دیہاتیوں جیسا ہی ہے مگر نوجوان نسل کی ترجیحات جدیدیت کی طرف مائل ہیں اور وہ گاؤں میں بھی شہری زندگی گزارنے کے خواں ہیں اور اکثر و بیشتر اس پر عمل پیرا بھی ہیں ۔ گاؤں میاں جیون تقریباً 350 گھروں پر احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس گاؤں کی آبادی تقریباً 2000 نفوس پر مشتمل ہے۔ جبکہ اس گاؤں کی موجودہ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقریباً 500 سے تجاوز کر رہی ہے۔ گاؤں میں موجود تمام گھر ‘ مکانات و دکانیں سب پختہ ہیں اور زیادہ تر اینٹوں سے تعمیر شدہ ہیں چند ایک گھروں کی دیواریں پتھروں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ گاؤں کی تقریباً تمام گلیاں پختہ ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور ٹھیکیداروں کی نا اہلی کی وجہ سے تمام گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت ملازم پیشہ ہے اور زیادہ تر بسلسلہ روزگار وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں رہائش پزیر ہیں چند ایک دوسروں شہروں کے علاوہ بیرون ملک حصولِ معاش کے لیے مقیم ہیں۔ تاہم یہاں کے لوگوں کا ایک ذریعہ آمدنی کھیتی باڑی بھی ہے جس سے اس گاؤں کے باسیوں کو معقول آمدنی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس گاؤں میں ایک بڑی تعداد میں قوم ملک اعوان آباد ہے ‘ اس کے علاوہ بھٹی راجپوت‘ جنجوعہ راجپوت‘ کھوکھر راجپوت ‘ جاٹ کھتڑیل‘ جاٹ بنگیال‘ بٹ اور مغل(جو ملک ہی کہلواتے ہیں)بھی آباد ہیں ۔ اس گاؤں کے دو قبرستان ہیں ایک گاؤں کے مشرق کی جانب اور دوسرا مغرب کی جانب۔ مشرق کی جانب قبرستان میں تمام برادریوں کے لوگ مدفون ہیں اور اس قبرستان میں ایک پختہ جنازہ گاہ بھی بنی ہوئی ہے جبکہ مغرب کی جانب والے قبرستان میں صرف جاٹ بنگیال برادری کے لوگ مدفون ہیں۔ اس گاؤں میں آنے جانے کے لیے پختہ سڑک بنی ہوئی ہے۔ یہ گاؤں 35دیہات کے وسط میں ہے اگر اس تک اچھی سڑک بنائی جائے اور اس میں ہسپتال اور ہائی اسکول بنائے جائیں تو پورا علاقہ مستفید ہو سکتا ہے۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. تاریخ جہلم از انجم سلطان شہباز، پبلشر بک کارنر نزد شاندار چوک جہلم