میاں محمد سعید چشتی صابری

شرقپور شریف کے جانب شمال پرانا پیلس سینما اور موجودہ پیلس شادی ہال کے قریب سے جوراستہ بھوئے ڈھکو کو جاتا ہے, اس رستے پر شادی ہا ل کے پیچھے ایک برزگ ہستی حضرت خواجہ میاں محمد سعید چشتی صابری محو استراحت ہیں۔ آپ بارھویں صدر ہجری کے بزرگ ہیں۔ آپ کا تعلق ایسے بزرگان دین سے ہے جن کی زندگیاں حضور نبی کریم ﷺ کی زندگی کا عملی نمونہ تھیں۔ جو لوگوں کی رشد وہدایت کی تعلیم دیتے تھے۔ حضرت خواجہ میاں محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جو بھی شخص حاضر ہوتا روحانی فیض حاصل کرتا اور آپ کی توجہ اور نگاہ کرم سے حق تعالیٰ سبحانہ کی طرف مائل ہوجاتا

حضرت خواجہ میاں محمد سعید 1140 ہجری بمطابق 1727 عیسوی میں لاھور کے نواح میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں مانگا میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد کا نام شیخ باقر علی تھا۔ جن کی خاندانی گوت ڈھنڈہ تھی۔ آپ نے قرآن پاک کے علاوہ دیگر علوم کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اجلہ اولیاء اللہ سے تھے،

ایک بار چاولوں کی دوبوریاں اپنے بیل پر لادے دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہے تھے کہ رستہ میں شاہ پور کانجرہ کے پاس حضرت نصیر الدین پیر مدرسہ کے قریب ایک کھڈ میں ان کے بیل کا پاوں اٹک گیا اور وہ گرگیا جس سے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی اور بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہا۔ دوسرے ساتھی انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ بیل کے پاس بیٹھ گئے۔ غلہ کی بوریاں بھی تھیں۔ جنگل اور ویرانہ میں چوروں اور ڈآکووں کا خدشہ بھی تھا۔ شام ہوئی اور رات کا اندھیرا امڈھنے لگا، تو انجانے خوف نے دل کو گھیر لیا۔ 20 سال کے اس نوجوان کو وحشت کے سائے ڈرانے لگے۔ پھر اچانک یہ رونے لگا۔ روتا بھی اور بھرائی ہوئی آواز میں اللہ اللہ بھی کہنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد بادل بھی گھر آئے۔ اندھیرا اور گہرا ہو گیا۔ بجلی کڑکتی اور چمکتی تو یہ نوجوان سہم کے رہ جاتا۔ جس اللہ کا نام اس نے سن رکھا تھا اس کو یاد کرنے لگا کہ اچانک ایک گھڑ سوار اس کے پاس آیا۔ نوجوان کی تو چیخیں نکل گئیں۔ اس کے خیال کے مطابق یہ کوئی لٹیرا تھا۔ اس کے رونے اور چیخوں میں اور تیزی آگئی۔ مگر گھڑ سوار اس کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ بڑی میٹھی اور پیاری آواز میں کہا تمھارے رونے کی وجہ کیا ہے ؟

نوجوان کو اس آواز میں بڑی ہمدردی کا احساس ہوا عرض کیا میرے بیل کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ غلے کا بوجھ میرے پاس ہے میرے ساتھی چلے گئے ہیں۔ میں اکیلا جنگل میں بیٹھا اپنی قسمت کو رورہا ہوں۔ گھڑ سوار نے کہا بیٹا، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ کا بیل توٹھیک ہے۔ اس کی ٹانگ بھی نہیں ٹوٹی۔ آپ کو ویسے ہی وہم ہو گیا ہے۔ بھلا اسے اٹھا کر تو دیکھو۔

اب نوجوان نے بیل کو اٹھایا تو وہ واقعی اٹھ بیٹھا اس کی ٹانگ ٹھیک ہو چکی تھی۔ اب اس گھڑ سوار نے کہ اپنا بوجھ اس بیل پر لادو اور اپنی منزل کا راستہ ناپو۔

نوجوان نے کہا یہ بھاری بوجھ مجھ اکیلے سے نہیں لادا جائے گا۔ نووارد نے اپنا عصہ بوجھ کو لگایا تو وہ خود بخود بیل کی پیٹھ پر لد گیا۔ اس کے بعد گھڑ سوار نے اس نوجوان کو دعا دی کہ اللہ تمھیں اپنی منزل مقصود پر صحیح سلامت پہنچائے۔ اس کے بعد وہ گھڑ سوار جدھر سے آیا تھا ادھر جانے لگا۔

نوجوان جلدی سے آگے بڑھا اور گھوڑے کی لگامیں پکڑ لیں۔ عرض کیا حضور آپ کون ہیں؟ آپ تو میرے لیے مسیحا بن کے آئے ہیں۔ آپ اپنا نام تو بتا دیں۔

گھڑ سوار نے کہا میرا نام علی اسد اللہ الغالب ہے۔

عرض کیا۔ اگر میں آپ سے ملنا چاہوں تو کہاں اور کیسے مل سکتا ہوں ؟

آپ نے فرمایا اسی جگہ پر، مزید فرمایا اپنے غلے کو بوریوں میں رہنے دینا اور فروخت کرتے رہنا یہ ختم نہ ہوگا۔ پھر وہ نووارد آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔


حضرت خواجہ میاں محمد سعید کے اقوال زریں:اہل بیت کا احترام کرو تا کہ فراموش نہ کر دیے جاو۔

خواہشات باطلہ کو چھوڑ دینے سے زندگی کو بقا ملتی ہے

ظلم و تشدد اور بے جا غصہ اور سنگدلی قابل مذمت ہیں۔

حضرت مولائے علی کی زندگی کا نمونہ انسان کی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے۔

اسم اللہ کا ذکر نفس کی موت کا باعث بتنا ہے۔

[1]

  1. https://tehreemtariq.wordpress.com/2011/10/29/%D8%B0%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D8%A8%D8%B2%D8%B1%DA%AF%D8%A7%D9%86-%D8%AF%DB%8C%D9%86-%D8%B1/