میر گل خان نصیرایک عہدآفریں شخصیت

’’14مئی اُنکی 103ویں یوم ِ پیدائش کے موقع پر ‘‘

تحریر: غمخوارحیات

’’میر گل خان نصیر‘‘بلاشبہ بلوچستان کی ایک تاریخ ساز شخصیت تھے ان کی قومی، علمی ، سیاسی خدمات ناقابل ِ فراموش ہے ۔ انھوں نے بلوچوں کی حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی اور اس مقصد کی حصول کے لیے زندان اور دیگر مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ لیکن اصولوں پر کھبی بھی سودابازی نہیں کی’’ میر گل خان نصیر‘‘ قبائلی فرقہ واریت کو بلوچ قوم اور سماجی ترقی و خوش حالی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ اس لیے انھوں نے قبائلی فرقہ واریت کی بھرپور مخالفت اور اس نظام کے خلاف آواز بلند کی

’’میر گل خان نصیر ‘‘نے اپنی شاعری سے محکوموں میں اک نیا جوش وولولہ پیداکیا ، قوم وطن کے لیے قربانی کے جذبے کو اُبھارا ،ترقی کے لیے کوشیشیں کی اور فرسودہ روایات کی بیخ کنی کی اور جدید دورکے تقاضوں سے ہم آہنگ وسیع تر انسانیت کی فلاح کے لیے آواز بلند کی :

’’ میرگل خان نصیر ‘‘بلوچ وبلوچستان سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے اس کا اندازہ ان کی شاعری سے بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔ انھوں نے ہمیشہ ظلم زیادتی اور نا انصافی کے خلاف آواز اُٹھائی وہ طبقاتی نظام محکومی اور غلامی سے نفرت کرتے تھے :

’’میر گل خان نصیر‘‘ کے بارے میں میر غوث بخش بزنجو کہتے ہے کہ ساری زندگی میں دیکھنے میں ہم دوبدن تھے مگر ہماری جان تقریباً ایک تھی ، میر گل خان نصیر اور میری سوچ ایک تھی میر غوث بخش بزنجو آگے لکھتے ہے کہ میرے نزدیک میر گل خان نصیر ایک پیدائشی اور فطری شاعرتھے ۔ ان کی پوری سیاسی جدوجہد کا سبب ان کی شاعری تھی ۔ میر گل خان نصیر نے جتنی بھی جاندار اور زندہ شاعری کی ہے وہ سب جیل اور زندانوں میں تخلیق ہوئی ۔ ان کی بہتر ین شاعری یا توقلی کیمپ کے زمانے کی ہے یا پھر کوءٹہ جیل اور منٹگمری کے زمانے کی ‘‘

نامور دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہے کہ’’ میر گل خان نصیر‘‘ سیاست میں اولین نسل کے ہمارے اکابرین میں سے تھے ۔ جن کے نام عبد العزیز کرد، یوسف عزیز مگسی ، امین کھوسہ ، عبد الصمد اچکزئی ، محمد حسین عنقاء ہیں ۔ پھر پاکستان نیشنل عوامی پارٹی تک میر گل خان نصیر ترقی پسندی کے ہر پڑاءو میں ساتھ رہے ۔ وہ ہر اُتارچڑھاءو میں ثابت قدم سیاست کرتے رہے، کھبی جیل میں کھبی جلاوطنی میں ‘‘

’’گل خان نصیر ‘‘کی سوچ اور اس سوچ سے ان کی وابستگی کی گواہی پاکستان کے ہرکونے میں موجود جیل خانہ دے گا ۔ انھوں نے اپنی 67سالہ زندگی کے 30برس قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے گزارے :

’’ میر گل خان نصیر‘‘ نہ صرف بلوچ بلکہ اس خطے کی پہچان ہے ۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک نصیرنے تادم مرگ اپنی نوشت وتخلیق میں بلوچستان وبلوچ عوام کی حقیقی ترجمانی کی نصیر نے افسانوی سوچ وفکر سے ہٹ کر اپنی نوشتِ تخلیق میں بلوچستان کی حقیقی تصویر کو پیش کیا ۔ نصیر نے اپنی شاعری میں بلوچ قبائلی نظام کو سماجی ترقی کے لیے بہت بڑی رکاوٹ کہاہے اور یقینا آج بھی بلوچ سماج کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قبائلی نظام ہے جس کی خول میں رہ کر بلوچ زندگی کی کسی شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک ہم اس خول کو نہیں توڑینگے اسی طرح سماجی اور سیاسی طور پر منتشر رہنگے نہ ہم سماجی طور پر ترقی کرسکے ینگے اور نہ ہمارے درمیاں اتحاد ویکجہتی کی رویے کو فروغ ملے گا:

نصیر نے اپنی شاعری میں نسلی تعصب سے بالاتر ہوکر قوم دوست وطن انسان دوست، انسانو ں کو اہمیت دی ۔

بلوچ تاریخ میں میر گل خان نصیر ایک ایساسنہری باب ہے جس نے بلوچ معاشرے میں سیاسی شعور کو روشناس کرایا بلوچ ادب میں ترقی پسند ادبی سوچ کو پروان چڑھایا ہمیشہ شعوری تعلیم کی بات کی اور ایک ایسے لیڈر کے طور پر نمایاں رہے جس کی قول وفعل میں تضاد نہیں تھی وہ ایک حقیقت پسند، دوراندیش اور روشن خیال مفکر تھے جس نے انتہائی سخت حالات کا اصولوں پر کار بندرہ کرمقابلہ کیامیر گل نصیرعدم تشدد کی نظریے پر عمل پیرا ہوکر نے اپنی تحریروں میں حق وصداقت ، مہرومحبت ، امن ویکجہتی کا پیغام دیتے رہے اورامن دشمنوں ، منافرت پھیلانے والے تنگ نظر سوچ کی ہمہ وقت مزاحمت کی :

’’ میر گل خان نصیر‘‘ جیسے شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتے ہے ۔ مثالی شخصیت کے مالک میر گل خان نصیر اپنی وجود میں ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہے ۔ اُسکی نقش ِ قدم پر چل کر ہماری موجودہ نسل علم ، فکر وشعورکی اُس منزل کو پاسکتی ہے جس کی نشان دہی میر گل خان نصیر نے اپنی شاعری و دیگر تخلیق میں کی ہے نصیر کی شاعری اور کتابوں پر تحقیق کی ضرورت ہے اور موجودہ دور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم میر گل خان نصیر کو پھر سے تلاش کرے ۔

نصیر نے بلوچ یزبان و ادب کو بین الاقوامی سطح پر ایک نئی پہچان دی ۔ بلاشبہ میر گل خان نصیر ہمارے لیے علمی ، فکری و شعوری لحاظ سے ایک علامت ہے نوجوان اور بلوچ قوم گل خان نصیر جیسے قومی اثاثے کی تقلید کرتے ہوئے ان کی پیغام کو عام کرے ۔

کہ آج میر گل خان نصیر سے بلوچستان کی شناخت وابستہ ہے اگر ہم میر گل خان نصیر جیسے شناخت کو نظر انداز کرینگے تو اپنی شناخت بھی کھودینگے ۔[1]

  1. سنگت اکیڈمی (2012ء)۔ "عشاق کے قافلے سلسلہ نمبر میر گل خان نصیر"۔ sangat acadamy.net۔ سنگت اکیڈمی۔ اخذ شدہ بتاریخ 23/08/2021