میری شیلی
میری شیلی (انگریزی: Mary Wollstonecraft Shelley)(30 اگست 1797ء-1 فروری 1851ء) انگریزی زبان کی ناول نگار نگار تھیں جو اپنی قوطیہ ناول فرینکینسٹین (1818ء) کے لیے مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنے شوہر کی تحریروں پر بھی کام کیا اور اس کی تشہیر کی۔ ان کے شوہر رومانی شاعر اور فلسفی پیرسی بائیشی شیلی تھے۔ ان کے والد سیاسی فلسفی ولیم گوڈ ون تھے اور والدہ بھی فلسفی اور تحریک نسوانیت کی علمبردار تھیں۔ ان کا نام میری والسٹونیکریٹ تھا۔ شیلی کی والدہ ان کو جنم دینے کے ایک ماہ بعد ہی چل بسیں۔ انھیں ان کے والد نے پال پوس کر بڑا کیا اور معیاری ادبی ماحول میں ان کی پرورش کی۔ انھوں نے میری کو گھر پر ہی اپنے حساب سے تعلیم دی اور انھیں اپنے نراجی سیاسی نظریہ کو کو اختیار کرنے پر ابھارا۔ ابھی وہ چار برس کی تھی کہ والد نے ایک پروسن سے شادی رچا لی جس کے میری کی کبھی نہ بنی۔[2][3]
1814ء میں انھوں نے ایک شادی شدہ شخص پیرسی بائیشی شیلی سے محبت کرنا شروع کر دی۔ وہ اپنی سوتیلی بین کلیری کلاریمونٹ کے ساتھ فرانس چلی گئی اور یورپ کا سفر کیا۔ جب وہ انگلستان واپس آئیں تب ان کے حمل میں پیرسی کا بچہ تھا۔ اگلے دو سال پیری اور میری کو سخت سماجی بائکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ قرض میں ڈوب گئے اور وقت کے پہلے پیدا ہوئی بچی بھی فوت ہو گئی۔ انھوں نے 1816ء میں شادی کرلی۔ اس سے قبل ہی پیرسی کی پہلی بیوی ہیریٹ نے خود کشی کرلی تھی۔
1816ء میں دونوں نے جینیوا سویٹزرلینڈ میں لارڈ بائرن، جان ولیم پولیڈوری اور کلیری کلاریمونٹ کے ساتھ موسم گرما گزارا جہاں انھیں اپنے ناول فرینکینسٹین لکھنے کا خیال ذہن میں آیا۔ 1818ء میں برطانیہ کو خیرآباد کہ کے اطالیہ چلے گئے جہاں میری نے دو بچوں کو جنم دیا اور دونوں زندہ نہیں رہ سکے۔ پھر ایک بیٹا پیرسی فلارینس شیلی پیدا ہوا اور وہ زندہ رہا۔ 1822ء میں اس کا شوہر پیرسی ویاریجیو کے قریب ایک کشتی میں سوار تھا کہ طوفان نے آگھیرا اور وہ ڈوب کر مرگیا۔ اس سانحہ کے ایک سال بعد میری انگلستان واپس آگئیں اور اپنی ساری زندگی اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کردی۔ زندگی کی آخری دہائی انتہائی اذیت اور بیماری میں گذری۔ انھیں دماغ میں ٹیومر ہو گیا تھا جس کی وجہ سے 53 کی عمر میں دنیا سے سدھار گئیں۔ 1970ء کی دہائی تک شیلی کو اپنے شوہر ک تحریروں کی اشاعت کے لیے ہی جانا جاتا تھا۔ پھر ان کا ناول فرینکینسٹین شائع ہوا اور لوگ انھیں افسانہ نگار کی حیثیت سے جاننے لگے۔ کلاسیکی انگریزی کے اس ناول کو خوب پذایرائی حاصل ہوئی۔ بعد میں ان کے کاموں پر مزید تحقیق ہوئی اور اور ان کے ناول، نظریات اور کارناموں کو جاننے کا موقع ملا۔ محقیین نے ان کے ناولوں پر خوب تحقیق کی اور دلچسپی دکھائی۔ ان کے تاریخی ناول والپیرگا (1823ء) اور پیرکیم واربیک (1830ء)، دی لاسٹ مین (1826ء) اور آخری دو ناول لوڈور (1835ء) اور فالکنیر (1837ء) مقبول عام ہوئے۔