نائین کی بیوہ کے بیٹے کو زندہ کرنا
ایک دفعہ سیدنا یسوع مسیح نائین شہر کو تشریف لے گئے جو کفر نحوم سے 25 میل کے فاصلہ پر تھا۔ حسبِ معمول نہ صرف آپ کے رسول ہی آپ کے ساتھ تھے بلکہ عوام کا ایک مجمع بھی تھا۔ جب آپ شہر کے نزدیک پہنچے تو کیا دیکھا کہ پھاٹک سے لوگ جنازے کو اٹھائے قبرستان کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ایک بیوہ کا واحد سہارا اور اکلوتا بیٹا فوت ہو گیا تھا۔ غم زدہ ماں کی مستقبل کی تمام امیدیں اسی سے وابستہ تھیں۔ اس سے پیشتر اسے اپنے خاوند کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ اس بیوہ کے شدید غم کو دیکھ کر منجیِ جہان کو اس پر بہت تریس آیا۔ اچانک اس نے ایک تسلی آمیز آواز سنی۔ "مت رو"۔ یہ آواز ہادیِ برحق کی تھی۔ گذشتہ چند گھنٹوں سے کتنے ہی لوگ اسے اس کے بیٹے کی موت اور اس کی واحد امید کے ٹوٹ جانے پر تسلی دینے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ لیکن اس آواز میں ایک عجیب اثر اور اختیار تھا۔ اب سوگواروں کی آنکھوں کے سامنے ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا۔ سیدنا یسوع مسیح نے آگے بڑھ کر جنازہ کو چھوا۔ جنازہ بردار خاموش کھڑے ہو گئے۔ مجمع پر سکتہ سا چھایا ہوا تھا تو آپ کی آواز گونجی "اے جوان! میں تجھ سے کہتا ہوں اٹھ،" اس ہستی کے جواب میں جس نے اپنے پر ایمان لانے والوں کے ساتھ ابدی زندگی کا وعدہ کیا ہے، مردہ اٹھ بیٹھا اور بولنے لگا۔ اس پر آپ نے اسے اس کی ماں کو سونپ دیا۔ یہ دیکھ کر مجمع پر دہشت چھا گئی اور وہ خدا تعالیٰ کی تمجید کرنے لگے کہ "ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی امت پر توجہ کی ہے۔"[1]
تفسیر
ترمیمموت، انسان کے لیے آخری حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ امیر اور غریب، عالم اور جاہل، مرد اور عورت ہر ایک کو اسی راستے سے گذرنا ہے۔ اکثر لوگ موت سے نہایت خوف زدہ رہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اس امر کے بارے میں کوئی تسلی نہیں ہے کہ اگلے جہان میں ان کا کیا حشر ہوگا۔[2]